Sunday, May 19, 2024
Homeٹرینڈنگایودھیا فیصلے کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دینے کا مطالبہ

ایودھیا فیصلے کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دینے کا مطالبہ

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی۔ ایودھیا میں متنازعہ زمین کےمتعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ، اکھل بھارتیہ سنت کمیٹی (راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے واضح کر دیا ہے کہ فیصلہ چاہے جو ہو وہ اسے ہندو مسلمان کا فرقہ وارانہ رنگ نہیں لینے دیں گے اور نہ ہی کاشی یا متھرا کا مسئلہ اچھالنے کی کوشش کریں گے ۔

ملک میں سادھو سنتوں کی اہم تنظیم اکھل بھارتیہ سنت کمیٹی کے قومی جنرل سکریٹری دنڈی سوامی جیتندرانند سرسوتی نے ملک کے تمام سنتوں کو ایک خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ تمام سنت اس موضوع کو شکست و فتح سے دور رکھ کر قومی اتحاد اور سالمیت برقرار رکھنے میں تعاون کریں۔ ان کی گفتگو اور تقریر معاشرے میں اشتعال پیدا نہ کریں۔ کسی کو چھڑنے کا کام نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے یا بعد میں سنتوں کی رائے صحافیوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے تک پہنچے گی۔ سب سے درخواست ہے کہ اگر کسی کو خوشی کا اظہار کرنا بھی ہو تو وہ اپنے گھر میں ذاتی پوجا پاٹھ، بھجن کیرتن کرکے مسرور ہوں۔ کسی بھی قسم کی رائے کا اظہار کرنے کی بجائے اپنے بھکتوں اور ساتھیوں کو معاشرے میں امن برقرار رکھنے کے لئے حوصلہ افزائی کریں۔

آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے اعلی سطحی ذرائع کے مطابق سنگھ نے بھی معاشرے میں نیچے تک یہ پیغام دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر کسی کی ہار یا جیت کے طور پر تبصرہ نہ ہو۔ اگر موافق فیصلہ آتا ہے تو اسے صرف سچ اور انصاف کے حق میں فیصلہ کہہ کر تحمل برتا جائے ۔ اسے ہندو اور مسلمان کے درمیان فرقہ وارانہ رنگ دینے سے بچایا جائے ۔ صرف یہی سمجھا جائے کہ ایک تاریخی غلطی کو ٹھیک کیاگیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر برعکس فیصلہ آتا ہے تو بھی ہندو سماج مکمل تحمل برتے گا اور اسے سپریم کورٹ کی بڑی بینچ میں چیلنج کرنے یا پارلیمنٹ میں قانون بنوانے کی کوشش کرنے جیسے عدالتی اور آئینی راستہ پر ہی چلے گا۔ اس بارے میں رائے عامہ تیار کرے گا لیکن کسی بھی حالت میں اشتعال یا افراتفری کو ہوا دینے والے رخ کو نہیں اپنائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایودھیا کا فیصلہ آنے کے بعد کاشی یا متھرا یا حملہ آورکی طرف سے توڑے گئے دیگر مندروں کے بارے میں بیان دینے یا بحث شروع کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

یہ پوچھے جانے پر کہ رام مندر کے حق میں فیصلہ آنے پر مسلمانوں کے لئے کیا پیغام جائے گا ذرائع نے کہا کہ سنگھ کا خیال ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ان کے باپ دادا محمود غزنوی، محمد غوری یا بابر جیسے حملہ آور نہیں ہیں۔ ان حملہ آوروں سے بہت پہلے ہی اسلام ہندوستان میں آ چکا تھا اور ہندوستان کی پہلی مسجد پیغمبر اسلام حضرت محمد کی زندگی کے دوران ہی کیرالہ کے کوڈنگلور علاقے میں بنائی گئی تھی۔ کیرالہ کے ضلع ترشور میں واقع چیرامن پیرومل مسجد اپنی سیکولر نظریے کے لئے مشہور ہے ۔

ذرائع کے بموجب غزنوی، غوری اور بابرکو آباءاجداد ماننے والے نظریہ نے ہی پاکستان بنوایا ہے ۔ جب ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں نے پاکستان کو مسترد کرکے وہاں کی بجائے ہندوستان میں ہی رہنا پسند کیا تو انہیں پاکستان کی تشکیل کے نظریات سے بھی کنارا کرلیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کے لئے یہی پیغام ہے کہ ون نیشن ون پیوپلز اور مذہب ان کی شناخت نہیں ہے بلکہ ہزاروں سال پرانی ثقافت اور ورثے ہی ان کی شناخت ہے ۔

ذرائع نے یہ بھی کہا کہ ان کی جدوجہد مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ حملہ آوروں کو پوجنے یا ہیرو ماننے والے نظریات سے ہے ۔ ہم مسلمانوں کوحملہ آوروں کی بجائے ہندوستان کے ثقافتی ورثے سے منسلک کرنے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے رام مندر تحریک کو ثقافتی غلامی سے نجات کی تحریک بتایا اور کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کام تو1947 میں سومناتھ کے مندر کے ساتھ ہی ہوجانا چاہئے تھا لیکن اب72 سال بعد اس کے حل کی امید جاگی ہے