Tuesday, May 21, 2024
Homesliderبابری مسجد انہدام کیس میں عدالت کے فیصلے سے عوام کا بھروسہ...

بابری مسجد انہدام کیس میں عدالت کے فیصلے سے عوام کا بھروسہ عدلیہ سے اٹھ گیا۔ ایس ڈی پی آئی

نئی دہلی: سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ( ایس ڈی پی آئی ) کے قومی صدر ایم کے فیضی نے اپنے جاری کردہ اخباری اعلامیہ میں لکھنو سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے بابری مسجد انہدام کیس کے تمام ملزموں کو بری کرنے کے فیصلے کو انتہائی مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے عوام کا بھروسہ عدلیہ سے اٹھ گیا ہے۔ سی بی آئی خصوصی عدالت کا مشاہدہ کہ بابری مسجد کا انہدام کسی باقاعدہ منصوبہ بندی سے نہیں کیا گیا تھا اور ملزمان اس جرم میں ملوث نہیں تھے یہ انصاف کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ملک کے ساتھ ایک بار پھر غداری کی گئی ہے اور اب ہندوستان میں انصاف ایک انتقام بن گیا ہے۔
ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو بی جے پی اور ہندوتوا تنظمیوں کے سینئر رہنماؤں ایل کے اڈوانی، اوما بھارتی، ونئے کٹھیاراور دیگر کی قیادت میں دائیں بازو کے ہندوتوا فاشسٹ کارسیوکوں نے دن کے اجالے میں منہدم کیا تھا اور پوری دنیا نے اس انہدام کو براہ راست دیکھاتھا۔انڈین نیشنل کانگریس کے اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ بابری مسجد کے مسمار کے وقت شتر مرغ بن گئے تھے اور اتر پردیش اور مرکز میں پورے گورننگ سسٹم نے کارسیوکوں کو مسجد مسمار کرنے سے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور چالاکی سے ان کی حمایت کرتی نظر آئی تھی۔بابری مسجد انہدام کی انکوائری کیلئے لبرہان کمیشن کا تقرر کیا گیا تھا جس نے انہدام کے 17سال بعد پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بابری مسجد انہدام کو منصوبہ بند، منظم طریقے سے سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیموں بشمول بی جے پی کی طرف سے جان بوجھ کر پیدا کردہ فرقہ وارانہ عدام رواداری کی فضا کا مطلوبہ نتیجہ تھا۔
رپورٹ میں مجموعی طور پر 68افراد کو شامل کیا گیا تھا، ان میں زیادہ تر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ،وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ہیں اور مسجد انہدام کے ذمہ دار ہیں۔ اس فہرست میں بی جے پی دستہ میں نہ صرف ہندوتوا نظریہ رکھنے والے لا ل کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی شامل ہیں بلکہ حیرت کی بات ہے کہ پارٹی کا مشہور اعتدال پسند چہرہ اٹل بہاری واجپائی کو بھی مجرموں میں شامل کیا گیا تھا۔ جسٹس لبرہا ن نے مزید کہا تھا کہ “یہ ایک لمحے کیلئے بھی نہیں مانا جاسکتا کہ ایل کے اڈوانی، اے بی واجپائی یاایم ایم جوشی سنگھ پریوار کے منصوبے کو نہیں جانتے تھے “۔ لکھنو سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو کو کیا لبرہان کمیشن کے تحقیقاتی رپورٹ کے بارے میں علم نہیں تھا جس میں ان تمام لوگوں کو واضح طور پر مسجد انہدام کے ماسٹر مائنڈ بتایاگیا ہے جنھیں آج جج سریندر کمار یادو نے بری کیا ہے؟۔ حیرت کی بات ہے کہ جج نے ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو مسجد کو گرانے سے ہجوم کو روکنے کا سہر ا دیا ہے۔
ایل کے اڈوانی کے ذریعہ ملک بھر میں رام مندر کی تعمیر (جہاں بابری مسجد موجود تھی) کا مطالبہ کرتے ہوئے نکالی گئی رتھ یاترا کوئی پوشیدہ سرگرمی نہیں تھی۔ پوری دنیا نے سنگھ پریوار کی بابری مسجد مسمار کرنے اور اسے مسمار کرنے کی ہر تحریک کا مشاہد ہ کیا ہے۔ سریندر کمار یادو کے ذریعہ جن رہنماؤں کو آج کلین چٹ دی گئی ہے وہ بابری مسجد انہدام کے وقت وہاں پر موجود تھے اور مسجد انہدام کرنے کیلئے کارسیوکوں کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے لبرہان کمیشن یا سی بی آئی کی تحقیقاتی رپورٹ کی کسی بھی تحقیق کو خاطر میں نہیں لیا ہے جس سے دنیا کے سامنے ملک کی شبیہ داغدار ہوئی ہے۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے ایک چوتھائی صدی سے زیادہ پرانا فوجداری مقدمہ ہے۔ بابری مسجد اراضی ملکیت سے متعلق تنازعہ پر کئی دہائیوں کے طویل سول سوٹ کو نومبر 2019میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے اپنے ہی تحقیق کے خلاف کہ یہ انہدام غیر قانونی تھا اور مسجد کا انہدام ایک مجرمانہ عمل تھا مسجد کی اراضی کو مندر کی تعمیر کیلئے دیکر نمٹا دیا تھا۔ جس چیف جسٹص آف انڈیا نے یہ عجیب و غریب فیصلہ دیا تھا ان کو سنگھی مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا رکن کا عہدہ دیکر انہیں اعزاز سے نوازا تھا۔
آج کے فیصلے سے واضح طور پر اس حقیقت کو تقویت ملتی ہے کہ مرکزی حکومت کا لالچ دینے کا ہتھکنڈا اچھی طرح کامیاب ہوا ہے۔ سی بی آئی کے خصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو حکومت کی طرف سے اعلی اعزازات کے لالچ میں آسانی سے آگئے ہیں۔سنگھ پریوار نے محتاط منصوبہ بندی کے ذریعے آہستہ آہستہ جمہوریت کو مٹا دیا ہے اور اپنی تمام غیر قانونی اور جمہوریت مخالف سرگرمیوں اور ان سرگرمیوں کی حمایت کرنے کیلئے سنگھی نواز بیوروکریسی اور عدلیہ کا ایک مضبوط نیٹ ورک تیار کیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے اختتام میں کہا ہے کہ عوام کو چاہئے کہ وہ خاموشی کے ساتھ سسٹم کے ذریعہ ہونے والی ناانصافیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے بیدار ہوجائیں، لڑیں اور فاشزم کو شکست دیں۔ تاکہ تنوع کا ملک قائم رہ سکے اور آئندہ نسلیں امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گذار سکیں۔