Sunday, May 19, 2024
Homeٹرینڈنگبابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوس کن : مجید اللہ...

بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوس کن : مجید اللہ خان فرحت

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔بابری مسجد متنازعہ اراضی پر آج سپریم کورٹ نے اپنا تاریخی فیصلہ سنادیا ہے جہاں رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے علاوہ مسلمانوں کو 5 ایکڑ اراضی مسجد کےلئے فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے پر ہندوستان کے ہرگوشے کے علاوہ دنیا بھر سے ملے جلے ردعمل آرہے ہیں جس میں کسی نے اسے ہندوستان کے موجودہ صورتحال اور مستقبل کے امن کےلئے بہتر فیصلے قراردیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا تو کسی نے اس فیصلے کو ملکیت اراضی کے بجائے استھا اور عقیدیت کے تناظر میں کیا جانے والے مایوس کن فیصلے قراردیا ہے اور اس فہرست میں ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کی سیاسی جماعت مجلس بچاو تحریک (ایم بی ٹی ) کے صدر مجید اللہ خان فرحت بھی شامل ہیں۔

مجید اللہ خان فرحت نے سپریم کورٹ کے بابری مسجد رام مندر متنازعہ اراضی کے فیصلے کو مایوس کن قرادیا ہے اور کہا ہے کہ فیصلے دستور کے مطابق کرنے کے بجائے فرضی شواہد اور استھا و عقیدت کے تناظر میں کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ ہر فیصلے کے حق میں رہے جوکہ قانون اور دستور کے تحت کیا جائے لیکن آج کا جو فیصلہ ہے جوکہ حق ملکیت کی بات تھی عدالت نے وہ حق ملکیت کی نہیں بلکہ استھا اور عقائد کی بنیاد پر فیصلہ کیا ۔

مجید اللہ خان فرحت نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ ساری دنیا کے سامنے ہے اور اس میں انصاف ہوا یا نہیں ہوا سب پر عیاں ہے اور مسلسل 1949 سے آج تک ہر قدم پر چاہے وہ مسجد کو مقفل کرنے یا اسے کے تالے کھولنے ، مسجد کا ایک مینار گرایا گیا اور پھر مسجد شہد کردی گئی ، پھر کھدائی کی گئی ،شواہد نہیں تھے تو شواہد پیدا کئے گئے ، دستاویزات نہیں تھے تو فرضی دستاویزات پیدا کئے گئے اور مسلسل ناانصافیاں ہوتی رہیں۔

مجید اللہ خان فرحت نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ لیکن آج بڑے افسوس کے ساتھ اور دکھی دل کے ساتھ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ دستور کے پہلے صفحہ پر درج ہے کہ انصاف کا احساس ہونا چاہئے ۔ بابری مسجد مقدمہ ہندو مسلم کا مسئلہ یا دو عقائد کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ملکیت اراضی کا مسئلہ تھا جہاں فرضی شواہد اور فرضی عقاید کی بنیاد پر ناانصافی کی گئی ۔

 ہم مسلسل جدوجہد کرتے رہے ۔ ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے اور یہ امید کرتے رہے کہ عدالت انصاف کرے گی کیونکہ عدالت کا کام انصاف کرنا ہے لیکن جو بابری مسجد کی کھدوائی ہوئی اس سے پہلے سنگھ پریوار اور بالخصوص ایل کے اڈوانی اور آر ایس ایس کے سربراہوں کا یہ بیان تھا کہ استھا کی بنیاد پر ہم عدالت کے کسی فیصلے کو نہیں مانتے ۔

 اس تاریخ کے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایل کے اڈوانی کے رتھ یاترا پر تشدد کوشش تھی اور یاترا کے موقع پر کہا تھا ہم کسی عدالت کو نہیں مانتے اور وقت بھی ہندوستان کا مسلمان یہ ہی کہا رہا تھا کہ عدالت سے انصاف ہوگا کیونکہ ہمارے پاس شواہد اور دستاویزات ہیں اور عدالت سے ہم کو انصاف ملے گا لیکن چند دن قبل سے قانون کے نہیں ماننے والے آر ایس ایس کے سربراہ قانون کو ماننے کی بات کررہے تھے ۔ جو مسلمانوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے وہ مسلمانوں سے بیٹھ کربات کرنے کے خواہاں تھے ۔ ان تمام حالات اور سازش کے تحت یہ سامنے آتا ہے کہ فیصلہ منصوبہ بند ہے۔ ذہن بناکر فیصلہ کیا گیا ہے۔

مجید اللہ خان فرحت نے مزید کہاکہ ہندوستان کا قانون اوردستور بی آر امبیڈکر نے مرتب کیا تھا اور آج سپریم کورٹ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ امبیڈکر کے قانون اور آزاد ہندوستان کے دستور کے مطابق فیصلہ نہیں ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج بھی یہ عہد لیتے ہیں کہ وہ دستور کی بالادستی کو قائم رکھیں گے لیکن آج جو عجیب وغریپ منظر دیکھنے کو ملا اور یہ فیصلہ دستور کی رو کے مطابق نہیں نہیں ہے اور الہ آباد کے ہائی کورٹ نے جو فیصلہ سنایا تھا اورجسٹس شرما نے جو فیصلہ دیا تھا ویسا ہی فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا ہے ۔ ہم یہ امید کررہے تھے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سدھار ہوگا لیکن سپریم کورٹ نے بھی ویسا ہی فیصلہ سنایا ہے۔