Monday, May 20, 2024
Homeٹرینڈنگبچوں اور بچیوں کی حفاظت کے لئے اسلامک ٹیچرس کی تجاویز

بچوں اور بچیوں کی حفاظت کے لئے اسلامک ٹیچرس کی تجاویز

- Advertisement -
- Advertisement -

آل انڈیا اسلامک ٹیچرس اسوسی ایشن کی جانب سے بچوں بچیوں کی حفاظت کے لیے 23 تجاویز پیش کی گئی ہیں۔  اسوسی ایشن کی جانب  سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد والدین کے لئے چند تجاویز پیش کی گئیں ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے بچوں کو جنسی ہراسانی سے بچاسکتے ہیں ۔ اسوسی ایشن نے اس خصوص میں کہا کہ بے شک عوام کے جان و مال کا تحفظ اور عزت و آبرو کی حفاظت حکومتِ وقت کی اولیں ذمہ داری ہوتی ہے۔ آج حکومت سے لے کر اسکول انتظامیہ تک تمام ادارے ’’بہت مصروف‘‘ ہیں۔ اگر حکومت کسی بھی وجہ سے ناکام ہوجائے تو کیا خیال ہے ہم اپنے لخت جگروں کو وحشی درندوں کے لیے چھوڑ دیں کہ وہ انہیں نوچتے پھریں؟ نہیں ہر گز نہیں، تو پھر ہمیں اپنے طور پر اپنے بچوں کی حفاظت کرنا ہوگی، لہٰذا بچوں خصوصاً معصوم بچیوں کی حفاظت کے لیے چند تجاویز، مشورے اور گذارشات پیش خدمت ہیں:

(1) والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی ہر قسم کی حفاظت ازخود ہی کریں۔ چوکیدار، اسکول انتظامیہ اور دیگر افراد پر نہ چھوڑیں۔ اپنے بچوں کی لمحہ بہ لمحہ خبر رکھیں کہ وہ اس وقت کہاں پر ہیں۔
(2) بچوں کو بتائیں کہ وہ کسی سے بھی کوئی چیز نہ لیں۔ اگر کوئی اجنبی یا غیراجنبی شخص کھانے پینے کی چیز یا رقم دینے کی کوشش کرے تو ہر گز ہر گز نہ لیں۔ سختی سے منع کردیں۔
(3) بچوں کو بتائیں کہ اسکول جاتے وقت یا گھر سے باہر آتے جاتے وقت کوئی شخص اپنے آپ کو آپ کا رشتہ دار بتائے اور آپ اسے پہلے سے نہ جانتے ہوں تو اس کے بہکاوے میں ہر گز نہ آئیں۔ صاف انکار کردیں۔ ان کے قریب بھی نہ کھڑے ہوں۔ ان کی بات بھی نہ سنیں۔ ان کی طرف دیکھیں بھی نہیں۔
(4) اسکول آتے جاتے وقت کوئی شخص آپ کو پکڑنے کی کوشش کرے تو زور زور سے چلّاتے ہوئے اسکول، مدرسہ یا گھر کی طرف دوڑ لگادیں۔ مدد کے لیے پکاریں۔ چیخیں، چلّائیں، روئیں۔
(5) والدین روزانہ کی بنیاد پر اپنے بچوں کو کم از کم ایک گھنٹہ دیں، اور ان سے روزانہ کی روداد اور پورے دن کی کارگزاری سنیں۔ اپنے بچوں کو اپنے سے اتنا قریب کریں کہ وہ ہر بات آپ کو کھل کر بتادیں۔
(6) اپنے بچوں کو خود اعتماد بنائیں۔ اپنے بچوں کو حیثیت دیں۔ انہیں اچھے برے کی تمیز اور دوست دْشمن کی پہچان سمجھائیں۔
(7) اپنے بچوں کو پورے کپڑے پہنائیں۔ بچیوں کو بھڑکیلے اور اشتعال انگیز کپڑے ہر گز ہر گز نہ پہنائیں۔ 7 سال سے بڑی بچیوں کو حجاب پہنائیں اور 10 سال کے بعد مکمل پردہ کروائیں، کیونکہ عموماً 10 سال کی بچیاں مشتہاء ہوجاتی ہیں۔
(8) اپنے بچوں کو خود اسکول و مدرسہ پہنچائیں اور واپس لے کر آئیں۔ بچیوں کے معاملہ میں کسی پر بھی اعتبار نہ کریں۔ یہ وقت اور دور شہوت پرستی کا ہے۔ مغربی تہذیب اور فلموں ڈراموں نے نوجوانوں کو ایسا درندہ بنادیا ہے کہ ہمہ وقت معصوم کو اْچکنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
(9) اپنے بچوں کو اچھی خوراک دیں، کیونکہ صحت پر، حالات پر، ماحول پر اور بچوں کے اعصاب اور ذہن پر خوراک کے اثرات مسلّم ہیں۔
(10) گھر میں جب کوئی مرد مہمان خصوصاً غیرمحرم نوجوان آئے تو مہمان خانہ میں اپنے بچوں اور خصوصاً بچیوں کو ہر گز اکیلا نہ بھیجیں۔ ایسے واقعات پیش آچکے ہیں کہ حیوان نما انسان نے اپنے محرم بچیوں کو بھی نہ چھوڑا۔
(11) دکانوں پر اپنی بچیوں کو اکیلے ہر گز چیز لینے کے لیے نہ بھیجیں۔ اگر مجبوراً بھیجنا پڑے تو سمجھا کر بھیجیں کہ دکاندار کوئی چیز مفت دیں تو ہر گز نہ لیں۔ ہنس کر بات کرے تو جواب نہ دیں۔ اگر کوئی دوسرا شخص دکان پر کھڑا خیرخیریت معلوم کرے یا بات کرنے کی کوشش کرے تو بالکل بھی توجہ نہ دیں۔ بس اپنی مطلوبہ چیز لے کر فوراً گھر واپس پہنچیں۔
(12) اپنے بچوں کو، اپنے گھرانے کو، اپنے خاندان کو بلکہ پورے معاشرے کو باحیا بنانے کی کوشش کریں۔ مغربی تہذیب اور ٹی وی چینل پر چلنے والی بے ہودہ فلموں اور فحش ڈراموں کی وجہ سے ہمارا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا جارہا ہے، چنانچہ اپنے گھروں سے ٹی وی نکال باہر کریں۔
(13) اپنے بچوں کے ہاتھوں اینڈوروائیڈ اور کیمرے والا بلکہ کسی قسم کا موبائل ہر گز نہ دیں۔ موبائل، واٹس ایپ کی وجہ سے آج نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔ اگر بچوں کو موبائل دینا نہایت ہی ضروری ہو تو ان کی پوری نگرانی کریں۔ وقتاً فوقتاً ان کے موبائل کی جانچ پڑتال کریں۔
(14) روزانہ کی بنیا دپر اپنے گھروں میں دینی تعلیم کریں۔ اس دوران گھر میں موجود سب بچے، والدین اور دیگر افراد موجود ہوں۔ دو منٹ کی تعلیم کے بعد حالاتِ حاضرہ سے بچوں کو واقفیت دیں۔ انہیں ہشیار کریں۔
(15) اگر والدین کے پاس وقت نہ ہو تو بچوں کے دادا دادی وغیرہ کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ بچوں کی نگرانی کریں۔ گھروں میں بوڑھے افراد عموماً فارغ ہی ہوتے ہیں۔ بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے کی ذمہ داری یہ حضرات بھی لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان کی ورزش بھی ہوجائے گی اور بچے بھی باحفاظت پہنچ جائیں گے۔
(16) بچوں خصوصاً بچیوں کو تنہا اسکول، مدرسہ اور ٹیوشن سینٹر نہ بھیجیں۔ پوری کوشش کریں بہن بھائیوں کے ساتھ یا پھر گلی محلہ کے دیگر بااعتماد بچوں کے ساتھ بھیجیں۔ کم از کم دو بچے یا دو بچیاں لازمی ہوں۔ اکیلے کو شیطان اچکنے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ جماعت پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔
(17) والدین اور اساتذہ بچوں کو اپنے تحفظ اور دفاع کے لیے کراٹے، تائیکوانڈ وغیرہ کی ضروری مشق کروائیں۔ اسکولوں میں دیگر کھیل کود کے ساتھ ساتھ اس کو لازم قرار دیا جائے۔ اس سے ورزش بھی ہوگی اور دفاع بھی مضبوط ہوگا۔
(18) فیملی سسٹم مضبوط کریں۔ وہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ جب جوائنٹ سسٹم ہو، ایک ہی گھر میں دادا دادی، سب بھائی ایک ساتھ رہنے کو ترجیح دیں۔ جب ہمارے ہاں یہ سسٹم مضبوط تھا تو مسائل بھی نہ تھے۔ا ب جبکہ شادی ہوتے ہی ہر شخص الگ رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو گھروں میں بچے تنہا ہوگئے ہیں۔ ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
(19) اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور انہیں یقین دلائیں کہ ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں اور جو بھی پابندیاں لگارہے ہیں وہ سب تمہارے تحفظ اور بہتری کے لیے ہی ہیں۔ جس دن بچوں کو یہ یقین آجائے گا اس دن آپ کامیاب ہوجائیں گے۔
(20) بچوں کو گاہے بہ گاہے اولیاء اللہ اور نیک لوگوں کی صحبت میں لے جایا کریں۔ مربّیسے تربیت دلوائیں۔ بچے صحبت سے بہت جلدی سیکھتے ہیں۔ نیک صحبت کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے والدین ہمیں اکابرین کی صحبت میں لے جایا کرتے تھے۔
(21) یہ بچے آپ (والدین) کے ہیں، ان کی تعلیم و تربیت کی اصل ذمہ داری والدین کی ہی ہے۔ والدین ہی سب چیزوں کے ذمہ دار ہیں۔ اگر والدین اپنی ذمہ داری پوری کریں تو مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ ہر شخص ذمہ دار ہے اور قیامت کے دن سے اس کی اس ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
(22) اپنے بچوں اور بچیوں کی صحبت کا بہت خیال رکھیں۔ وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور کن کن لوگوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ بچیوں کو ہر گز اکیلے محلوں کے گھروں میں نہ بھیجیں۔ ان کو سمجھائیں کہ جب بھی گھر سے باہر جائیں تو اپنی والدہ ہی کے ساتھ جائیں۔
(23) شنید ہے کہ پورے ملک میں ایک گروہ ہے جو معصوم خصوصاً غریب اور پسماندہ علاقوں کی بچیوں کو اغواء کرکے غیراخلاقی فلمیں بنارہا ہے اور پھر مغربی ممالک میں مہنگے داموں بیچ رہا ہے۔سیکوریٹی اداروں کو اس پر بھی تحقیق کرنی چاہیے۔ محلہ اور گلی کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دیں۔ جو آنے جانے والے افراد پر نظر رکھیں۔
سب یاد رکھیں! یہ بچے ہی کل ہمارا مستقبل ہیں۔ اگر ان کی بنیادیں مضبوط ہوں گی تو اس پر کھڑی ہونے والی عمارت بھی دیرپا ہوگی