Tuesday, April 30, 2024
Homeاقتصادیاتبی ایس این ایل عنقریب کیا قصہ پارینہ بن جائے گا

بی ایس این ایل عنقریب کیا قصہ پارینہ بن جائے گا

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی۔ خانگی کمپنیاں جہاں ایک جانب فائی جی خدمات شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہیں وہیں سرکاری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی بی ایس این ایل کے 4 فیصد سے بھی کم موبائل ٹاور فورجی خدمات فراہم کر رہے ہیں جس کا صاف مطلب ہے کہ آنے والے دنوں میں بی ایس این ایل تاریخ کا حصہ بن جائے گی، اس طرح ایک اور سرکاری کمپنی کا خاتمہ ہو جائے گا۔مواصلات کے وزیر مملکت سنجے دھوترے نے لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 31 مئی کو ملک میں بی ایس این ایل کے 154299 ٹاورس کام کررہے تھے ان میں 5921 ٹاور 4 جی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اس طرح فعال ٹاورز کی جملہ تعداد میں محض 3.84 فیصد ہی 4 جی خدمات دے رہے ہیں۔

دھوترے نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت بی ایس این ایل اور اس یونٹ کے ایم ٹی این ایل کو بچانے کے لئے کوشش کر رہی ہے۔ اس کے نتائج جلد ہی نظر آئیں گے۔ ایوان میں دیئے گئے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ راجستھان، مغربی بنگال، شمال مشرق 2، جھارکھنڈ، کولکاتا ٹی ڈی اور انڈمان نکوبار سرکلز میں بی ایس این ایل کا ایک بھی 4 جی ٹاور نہیں ہے۔ ان میں راجستھان کے علاوہ تمام سرکل میں موبائل توسیع منصوبے کے آٹھویں مرحلے کے تحت 4 جی ٹاور لگانے کا منصوبہ ہے۔ سرکاری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے جملہ فعال موبائل ٹاورز میں 87629 یعنی 56.79 فیصد ٹوجی کے حامل ہیں۔ دیگر 60749 یعنی 39.37 فیصد ٹاور 3 جی سے لیس ہیں۔

یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بی ایس این ایل بے ضابطگیوں کی وجہ سے بند ہو سکتی ہے۔ویسے بی ایس این ایل میں بے ضابطگی کے ایک بڑے معاملہ کا پہلے ہی پردہ فاش ہوچکا ہے اور اس معاملہ میں کم و بیش 20 ہزار کروڑ کی بے ضابطگی سامنے آئی ہے جوکہ محکمہ ٹیلی مواصلات (ڈاٹ) کی ملکیتوں یعنی عمارتوں اور زمینوں کو بی ایس این ایل کو منتقل کرنے سے متعلق ہے۔ یہ ادارہ یوں تو انٹرگورنمنٹل (بین سرکاری) ہے، لیکن قانونی پیچیدگیوں کے سبب خمیازہ آخر میں ان بی ایس این ایل صارفین کو ہی بھگتنا پڑتا ہے جو امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے نیٹ ورک میں بھی اسی طرح کی سہولتیں ملیں گی جو خانگی آپریٹرس اپنے صارفین کو دے رہے ہیں۔

 دراصل پورے ملک میں ڈاٹ کی ایسی تقریباً 7 ہزار ملکیتیں ہیں جن کی قیمت دو سے تین لاکھ کروڑ روپے ہے۔ سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ ڈاٹ اور بی ایس این ایل کے سرکردہ عہدیداروں نے آپسی اتحاد کے ذریعہ اس اسکام کو انجام دیا ہے۔اراضی سے متعلق قوانین کے مطابق ڈاٹ کی ملکیتوں کو بی ایس این ایل کو منتقل کرنے پر مختلف ریاستوں میں اسٹامپ ڈیوٹی دینا لازمی ہے۔ یہ اسٹامپ ڈیوٹی ڈاٹ کو اداکرنی ہوتی ہے لیکن داخل خارج (میوٹیشن) کا عمل پورا نہ کرتے ہوئے ایک بھی پیسے کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔

یہ کوئی لاپروائی سے ہوئی غلطی نہیں ہے بلکہ کابینہ نے 2000ءمیں دیئے حکم میں اور صدر جمہوریہ دفتر کی طرف سے 2011 میں دی گئی ہدایات میں ایسا کرنے کی ہدایت تھی پھر بھی ایسا نہیں کیا گیا۔ظاہر ہے کہ اعلیٰ عہدیدار بھی اس قانونی عمل کو پوری طرح جانتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ جب اس کا انکشاف ہوا تو ہماچل پردیش کے ڈی جی پی کے حکم پر ڈاٹ کے محکمہ ٹیلی مواصلات (مالیات) کے رکن انورادھا مترا اور نائب ڈی جی (پراپرٹی منیجمنٹ) سوربھ گیواری کے ساتھ بی ایس این ایل کے اعلیٰ سطحی عہدیداروںکے کردار کی تحقیقات فوراً شروع کر دی گئی۔