Monday, April 29, 2024
Homeٹرینڈنگتاج محل اور گاندھی جی کے بغیر ہندوستان کا خوف ناک مستقبل

تاج محل اور گاندھی جی کے بغیر ہندوستان کا خوف ناک مستقبل

- Advertisement -
- Advertisement -

ممبئی ۔ فلمی دنیا کسی بھی ملک کے حالات، رجحانات اور تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہے یہ وجہ ہے ہندوستانی فلم دنیا یا بالی ووڈ جس نے مغل اعظم،جودھااکبر ،چیک دے انڈیا،لگان ،بھارت اور اس طرح نہ جانے کتنی فلموں کے ذریعہ ہندوستان کی تاریخ،تہذیب اور حالات کی ترجمانی کی ہے اس کے علاوہ کسی بھی ملک کے حالیہ عرصہ میں رونما ہو رہے واقعات ہی اس ملک کا مستقبل طے کرتے ہیں۔ اگر ایک مذہب، ایک نظریہ کو فروغ دیا جانے لگے اور سماج کے دوسرے حصوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جائے اور اسے سیاسی طور پر غیر موزوں بنا دیا جائے اور امتیازی سلوک کیا جائے تو اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا اس کا آسانی سے تصور کیا جا سکتا ہے۔

 فلمی دنیا ہی وہ پہلا گوشہ ہوتا ہے جوکہ کسی بھی ملک میں بدلتے حالات کا نبض پکڑ کر اس کے مستقبل کی تصویر کشی کرتی ہے ۔فلموں کے ذریعہ کسی ملک کے مستقبل کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے وہ کبھی شاندار اور تانباک مستقبل کی خوش خبری سناتی ہے تو کبھی خوفناک حالات کے خدشات ظاہر کرتی ہے ۔ فلموں کے ذریعہ ہندوستان کی جو تصویر اس وقت پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ خوفناک مستقبل کے خدشات کو ظاہر کررہی ہے جس میں بابائے قوم مہاتما گاندھی اور دنیا کے سات عجائبات میں شامل محبت کی نشانی تاج محل کے غائب ہونے کا خدشتہ اور ہندوستان پر ایک مخصوص طبقے کی مطلق العنانیت کو ظاہر کررہی ہے۔

نیٹ فلکس پر ریلیز ویب سیریز لیلیٰ ہندوستان کے مستقبل کی ایسی ہی خوفناک تصویر پیش کرتی ہے جسے دیکھ ہر ہندوستانی جس کو اپنے ملک اور اپنے ملک کے باشندوں سے محبت ہے وہ تشویش میں مبتلاءہونے کے علاوہ اس ایک قسم کا خوف بھی کھائے جارہا ہے۔ یہ ویب سیریز پریاگ اکبر کے شائع ہونے والے لیلیٰ نام کے ناول پر مبنی ہے، جس کے ہدایت کار مشترکہ طور پر دیپا مہتا، شنکر رمن اور پون کمار ہیں۔ اہم اداکار ہما قریشی، راہل کھنہ، عارف ذکریہ، سنجے سوری، سیما بسواس اور آکاش کھورانا ہیں۔ سیریز میں شالنی پاٹھک (ہما قریشی) کا کردار اہم ہے، جس نے مسلمان لڑکے رضوان چودھری سے شادی کر لی ہے۔ شالنی اور رضوان آریہ ورت نام کے ایک خیالی ملک کے باشندے ہیں۔

آج کل جس طرح لو جہاد کے نام پر شدت پسند ہنگامہ آرائی کی جارہی ہے اس کا مستقبل 2047 کے آریہ ورت میں اس کا شدید روپ نظر آتا ہے اور شالنی کو مسلمان سے شادی کرنے کی سزا اس طرح دی جاتی ہے کہ اس کے گھر میں گھس کر شوہر کو قتل کر دیا جاتا ہے، بچی کو چھین لیا جاتا ہے اور شالنی کو اغواءکر کے ونیتا کلیان کیندر نامی ایک ایسے قید خانے میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں شدھی کرن کے نام پر خواتین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ یہیں سے شالنی کی زندگی بدل جاتی ہے اور اس کے اذیت ناک سفر کے درمیان آریہ ورت کی خوفناک تصویر نمایاں ہوتی ہے۔ دراصل آریہ ورت میں اگر الگ الگ زمرے کے مرد اور عورت شادی کر لیتے ہیں، تو ان کے جو بچے پیدا ہوتے ہیں انہیں مِشرِت یعنی مکسڈ بچے کہا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو سماج پر کلنک (داغ) مانا جاتا ہے اور انہیں مٹا دیا جاتا ہے یا غائب کر دیا جاتا ہے۔

 لیلیٰ بھی چونکہ ہندو ماں اور مسلم باپ کی اولاد ہے اس لئے وہ بھی غائب کر دی جاتی ہے۔ شالنی کو معلوم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی بچی کے لئے سب کچھ سہتی ہے اور خطروں سے کھیل جاتی ہے۔ہما قریشی نے لیلی کے ذریعے اپنا ڈےجیٹل کریرکا آغاز کیا ہے اور اپنی پہلی ہی ویب سیریز میں چھا گئی ہیں، ان کی اتنی زبردست اداکاری کو دیکھ کر کہا جا رہا ہے کہ یہ ان کی اب تک کی سب سے بہترین کارکردگی ہے۔اداکاری یا اداکاروں سے قطع نظر آریہ ورت کہنے کوتو ایک خیالی ملک معلوم ہورہا ہے لیکن جگہ جگہ بھگوا رنگ اور گونجتے ہوئے منتروں سے یہ احساس ہو جاتا ہے کہ یہ کس ملک کا مستقبل ہے۔ یہاں کا سپریم لیڈر ڈاکٹر جوشی ہے جو ایک تاناشاہ بن چکا ہے۔

سماج پانچ حصوں (ایک سے لے کر پانچ زمروں) میں تقسیم ہو چکا ہے۔ پانچ زمرے یعنی کہ پنچ کرمی خدمت گاروں کا طبقہ ہے جنہیں غلاموں کی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ ایک ایک زمرے یا طبقہ کا ایک علیحدہ مقام ہے جس میں لوگ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں لیکن بغیر اجازت کسی دوسرے حلقے میں جانے پر پابندی ہے۔ ان پانچ زمروں کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں انہیں دوش (دوشت یعنی ناپاک) کہا جاتا ہے، انہیں زبردستی شہروں سے بہار نکال دیا گیا ہے اور شہروں کے باہر فلک بوس دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ دوش افراد شہر کے باہر خیموں میں رہتے ہیں جہاں چاروں طرف گندگی اور کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ دوش بتاکر کن لوگوں کو سماج سے علیحدہ کیا گیا اس کا اندازہ گندی بستی کے گھروں میں نیلے اور ہرے رنگ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

دو سال کی محنت کے بعد جوشی کے حکم سے تمام دوش لوگوں کو شہروں سے بہار نکالا گیا ہے اور اب وہاں بھی ان کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ ایک ایسا پروجیکٹ (اسکائی ڈوم) لانے کی تیاری ہے جس کے آغاز کے ساتھ ہی شہروں سے باہر رہنے والے تمام لوگوں کی نسل کشی یقینی ہے۔اس سیریز کے دو مناظر قابل غور ہیں۔ شالنی (ہما قریشی) کا تعاقب کرتے ہوئے آریہ ورت کے لوگ ایک دوشوں کی بستی تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں ایک کباڑ خانہ نما دکان میں گاندھی جی کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ جیسے ہی آہٹ ہوتی ہے وہ شخص گاندھی کی تصویر کو پلٹ دیتا ہے اور جوشی کی تصویر کو سامنے کر دیتا ہے۔ بعد میں جب وہ لوگ چلے جاتے ہیں تو وہ پھر سے گاندھی کی تصویر کو سامنے کر دیتا ہے۔

دوسرے منظر میں بابری مسجد کی طرز پر تاج محل کو منہدم کئے جانے کی خبر ٹی وی پر نشر ہوتی ہے۔ اس منظر میں جنونی ہجوم اور کئی لیڈران تاج محل کو منہدم کر دینے کی خوشی مناتے نظر آتے ہیں۔مذہبی جنون اور قدامت پسندی سے لبریز آریہ ورت میں ٹیکنالوجی کی ترقی تو ظاہر ہوتی ہے، کمیونیکیشن کے نئے ذرائع ایجاد کر لئے گئے ہیں، کمپیوٹر مزید طاقت ور ہو گئے ہیں، سرویلانس اور سکیورٹی زبردست ہو چکی ہے، ہتھیار بھی جدید ہو گئے ہیں لیکن پانی اور صاف ہوا کا بحران اپنی حدوں کو پار کر چکا ہے۔ ساتھ ہی انسانیت بھی مر چکی ہے اور گالی گلوچ پہلے سے بھی زیادہ عام ہو گئی ہے۔

آریہ ورت میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا موت ہے۔ عوام کی ہجومی تشدد کرنا عام بات ہے اور باغیوں کو سر عام چوراہوں پر پھانسی دی جاتی ہے یا پھر نذر آتش کر دیا جاتا ہے۔ اس تمام طرح کے اختیارات رکھنے والے سماج میں جوشی جی جو بھی کہیں وہی حرف آخر ہوتا ہے۔یوں تو آریہ ورت میں مسلمانوں کا بھی اشرف گنج نام سے علاقہ ہے لیکن وہاں کے مسلمان بھی جوشی کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ورنہ ان کی خیر نہیں! ہمارا ملک ہندوستان بھی اگر موجودہ حالات پر چلتا رہا تو یہ بھی آریہ ورت بننے سے محض دو۔ چار قدم ہی دور ہے لیکن مایوسی کفر ہے لہذا اس فلم کو فلم ہی تصور کرنے کی حماقت بھی نہیں کرنی چاہئے بلکہ اسے خوفناک مستقبل کا اشارہ سمجھتے ہوئے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا تاکہ ہندوستان کی سیکولر شناخت کو باقی رکھا جاسکے۔