Saturday, May 18, 2024
Homeتازہ ترین خبریںتلنگانہ میں خاتون سیاسی لیڈروں کی گھٹتی تعداد انکی مقبولیت میں کمی...

تلنگانہ میں خاتون سیاسی لیڈروں کی گھٹتی تعداد انکی مقبولیت میں کمی کا ثبوت

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔20 مارچ  ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردئے جانے کے بعد سارے ہندوستان میں انتخابی ماحول عروج کی طرف گامزن ہے  اور ریاست تلنگانہ میں خاتون سیاسی  امیدواروں کے تناظر میں اگرانتخابات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں خاتوں امیدواروں کی مقبولیت نا صرف آٹے میں نمک کے برابر ہے بلکہ ہر گزرتے انتخاب کے ساتھ ریاست تلنگانہ میں خاتون امیدواروں کی تعداد میں کمی دیکھی جا رہی ہے

۔تلنگانہ میں خاتون امیدواروں کے ڈیٹا کا اگر تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ 2009 کے انتخابات میں جہاں 23 امیدواروں نے میدان سنبھالا تھا وہی 2014 کے انتخابات میں امیدواروں کی تعداد میں کمی ہوئی اور یہ تیزی سے گھٹ کر اٹھارہ ہو گئے ۔اب 2019 میں انتخابات ہونے والے ہیں تو خاتون امیدواروں کی تعداد میں کوئی حوصلہ افزا اضافہ دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ ایسا گمان کیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ خاتون امیدواروں کی تعداد میں مزید کمی آئے گی جیسا کہ کانگریس کی جانب سے جو ابتدائی فہرست جاری کی گئی اس میں 16 امیدواروں کے نام درج ہیں لیکن اس میں ایک بھی خاتون امیدوار نہیں ہیں جبکہ ٹی آر ایس اور بی جے پی کی امیدواروں کی فہرست میں ایک یا دو خاتون امیدوار موجود ہیں

۔2014 کے انتخابات میں برسراقتدار ٹی آر ایس کی جانب سے رکن پارلیمنٹ کویتا کلوا کنٹلہ نے نظام آباد سے انتخاب لڑا تھا اور انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی دوسری جانب بی جے پی نے آٹھ امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا جبکہ کانگریس نے ریاست کے تمام حلقوں سے امیدوار کھڑے تھے لیکن اس میں کوئی بھی خاتون امیدوار نہیں تھی ۔2009 کے انتخابات میں ٹی آر ایس اور کانگریس نے خاتون امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا جیسا کہ اس نے میدک سے فلمی اداکارہ وجے شانتی کو ٹکٹ دیا تھا جنہوں

نے کامیابی حاصل کی۔  کانگریس نے رینوکا چودہری کو کھمم سے ٹکٹ دیا تھا جو کہ اپنے علاقے میں دوسرے مقام پر رہیں ۔ 2009 اور 2014 کے انتخابات میں ان جماعتوں نے خاتون امیدواروں کو زیادہ ٹکٹ دیں جنکی تلنگانہ میں کوئی  خاص مقبولیت نہیں تھی ۔ 2014 کے انتخابات میں 12 خاتون امیدوار میدان میں تھیں جن میں بھی چار امیدوار آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑیں تھیں ۔ یہ رجحانات بتاتے ہیں کہ ریاست تلنگانہ میں اہم سیاسی جماعتیں ہنوز خاتون امیدوار پر بھروسہ نہیں کرتی  اور مانتی ہیں کہ ریاست تلنگانہ میں خاتون امیدوار پارٹی کو کامیابی دلوا  نہیں سکتی ہیں ، اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ گزشتہ روز کانگریس کی سابق امیدوار نے جماعت  چھوڑ کر بحیثیت آزاد امیدوار اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے

۔ 2014 میں ہوئے انتخابات میں ریاست تلنگانہ کی خاتون امیدواروں کی تعداد کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عام آدمی پارٹی نے  دو امیدواروں کو ٹکٹس دیے تھے جبکہ بی ایس پی ، ٹی آر ایس ، جنتا پارٹی ، پیرامیڈ پارٹی  اور سوشلسٹ پارٹی  نے فی کس ایک امیدوار کو میدان میں اتارا تھا جبکہ چار آزاد امیدوار بھی میدان میں تھی ۔ 2014 میں جو 12  خاتون امیدوار انتخابات لڑیں تھیں ان میں بھی 7 کا تعلق ایس سی اور ایس ٹی طبقہ سے تھا۔