Monday, May 13, 2024
Homesliderجی ایچ ایم سی پولنگ بوتھ پر 17 سالہ طالب علم اسسٹنٹ...

جی ایچ ایم سی پولنگ بوتھ پر 17 سالہ طالب علم اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر ، تحقیقات کا آغاز

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد۔ ریاست تلنگانہ میں اپوزیشن  جماعتوں کے رہنماؤں نے الزام لگایا کہ جی ایچ ایم سی انتخابات کے لئے ایک 17 سالہ طالب علم کو اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر مقرر کیا گیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ تلنگانہ ہائی کورٹ اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کرے۔ کانگریس قائدین کونڈا وشویشور ریڈی اور سراوان داوسج نے ٹویٹر پر پولنگ بوتھ سے ایک ویڈیو شیئر کی جہاں یہ 17 سالہ طالب علم منگل کو جی ایچ ایم سی انتخابات کے دوران تلنگانہ اسٹیٹ الیکشن کمیشن کے ذریعہ جاری کردہ سرکاری شناختی کارڈ پہنے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

کارڈ میں 17 سالہ طالب علم ورون ساگر کی شناخت سرور نگر  کے علاقے آئی ایس سدان میں وارڈ نمبر 38 کے اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے کی گئی ہے۔ کانگریس کے قومی ترجمان  سراوان نے کہا تلنگانہ اسٹیٹ الیکشن کمیشن جو آئین کا پاسبان سمجھا جاتا ہے ، اسے ختم کرنے کا سازشی مرکز بن گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک کم عمر لڑکا  جس کے پاس رائے دہی کا بھی حق نہیں ہے ، اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر کے عہدے پر مقرر کیا گیا ہے جو کمیشن کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ کمشنر نے انتخابات کے سارے عمل کو جوڑنے میں مشکوک کردار ادا کیا ہے۔

 تلنگانہ ہائیکورٹ سے اپیل ہے کہ وہ مداخلت کرے  اور اس گستاخانہ انتخاب کی تحقیقات کا حکم دیں ۔ تلنگانہ کانگریس کے رہنما اور سابق رکن  پارلیمنٹ کونڈا وشویشور ریڈی نے ٹویٹ کیا ایک 17 سالہ طالب علم  کو پولنگ افسر مقرر کیا گیا ہے۔ دن کے اختتام پر پولٹ ووٹوں کے ساتھ فارم 21 پر بیلٹ باکس نمبر کے ساتھ پولنگ افسران کے دستخط ہوتے ہیں۔ بیلٹ باکس کے لئے اس میں کالم نہیں تھا۔ پولنگ افسران تربیت یافتہ نہیں تھے  جو قواعد  سے بے خبر رہے۔ سابق رکن  پارلیمنٹ اور کانگریس لیڈر مسٹر کونڈا وشویشور ریڈی نے مزید کہا کہ  ان جیسے واقعات سے ریاست تلنگانہ میں جمہوریت سے ہمارا یقین ختم ہوجاتا ہے۔ اساتذہ کو انتخابی ایجنٹ ہونے سے نااہل قرار دینا اور 17 سالہ طالب علم جو خود پولنگ آفیسر کی حیثیت سے اہل نہیں ہے کو مقرر کرنا  شرم کی بات ہے۔ تاہم ہمیں مایوس  نہیں ہونا چاہئے اور ان جیسے واقعات کو منظر عام  پر لانا ہوگا۔ ان جیسے واقعات کی مذمت کی جانی چاہئے اور ہمیں جدوجہد  کی ضرورت ہے۔