Thursday, May 16, 2024
Homeدیگرنقطۂ نظرحیدرآباد دکن میں سحر و افطار کے اوقات کیا شرعی احکام کے...

حیدرآباد دکن میں سحر و افطار کے اوقات کیا شرعی احکام کے عین مطابق ہیں؟

اطہر معین

صرف حیدرآباد دکن میں ہی سحر میں تعجیل اور افطار میں تاخیرکیوں؟جبکہ شریعت میں تو سحر میں تاخیرکی گنجائش ہے اور افطار میں تعجیل کی ترغیب ہے۔یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج بہت سے نوجوانوں کے ذہن میں کوندتا ہے مگر ہمارے علمائے کرام اس کا تشفی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں اور یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ یہ احتیاط کا تقاضہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت میں ایسی احتیاط برتنے کی ترغیب نہیں دی گئی ہے ۔ حتیٰ کہ کسی ضعیف حدیث سے بھی احتیاط کو ملحوظ رکھنے کا اشارہ نہیں ملتا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ، صرف یہی کہ دہوں قبل صلوٰۃ و صیام کے اوقات کے لئے تیار کردہ جدول کو ہمارے اسلاف کے علماء نے توثیق کی تھی اور ہم اپنے اجداد کے اکرام میں حق بات ماننے سے انکار کرتے ہیں اورغلطی کا اعادہ ہی کرتے جارہے ہیں۔

- Advertisement -
- Advertisement -

کیا ہم جس نظام الاوقات کے تحت سحر و افطار کرتے ہیں وہ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں معین کردہ پیمانہ پرکھرا اترتے ہیں ؟کیا ہمیں اوقات سحر و افطار میں احتیاط سے کام لینا چاہئے یاجو رعایت ملی ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے؟ وقت سحر و افطار کا تعین مسالک کے اعتبار سے مختلف ہے یا پھر نظام الاوقات میں غیر ضروری تعجیل و تاخیر کا اہتمام کیا گیا ہے؟ یہ سوال آج کل ان نوجوانوں کے زیر بحث ہے جو قرآن حکیم اور احادیت مبارکہ کی روشنی میں اپنے اعمال کو سنوارنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور جنہیں علم دین کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی بھی کماحقہ جانکاری ہے۔
شہر میں کچھ مساجدمیں سحر و افطار کے لئے سائرن کے استعمال کی بجائے اذاں ہی دی جاتی ہے جس سے شہریوں میں ایک قسم کا کنفیوژن پیدا ہونے لگا ہے۔ جو لوگ دین کی فقہی باریکیوں سے واقف نہیں ہیں وہ الجھن کا شکار ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ افطار میں احتیاطاً تاخیر کرنا ہی مناسب ہے ورنہ روزہ ضائع ہوجائے گا، اسی طرح سحر میں احتیاطاً عجلت کرلینے میں ہی عافیت ہے جبکہ احادیث مبارکہ میں ہمیں اس کے مغائر کرنے کی رعایت ملتی ہے۔
قرآن حکیم میں سورہ بقرہ میں رمضان کے روزہ کے بارے میں یہ صراحت ہے کہ ’’ روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع تمہارے لئے حلال کیا گیا، وہ تمہارا لباس ہے اور تم ان کے لباس ہوتمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اس نے تمہاری تو بہ قبول فرماکرتم سے درگذر فرمالیا اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالی کی لکھی ہوئی چیز کی تلاش کرنے کی اجازت ہے۔تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سپید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے پھر رات تک روزہ کو پورا کرو اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کروجب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کیلئے بیان فرماتاہے تاکہ وہ بچیں‘‘ (2:187 )


قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے جہاں شب رمضان میں مغرب سے صبح صادق تک مجامعت کرنا حلال کیا ( بشرطیکہ معتکف نہ ہو) وہیں صبح صادق تک کھانا پینا مباح فرمایا۔ قرآن حکیم میں رات کو سیاہ ڈورے سے اور صبح صادق کو سفید ڈورے سے تشبیہ دی گئی ہے۔معنی یہ ہیں کہ تمہارے لئے کھانا پینا رمضان کی راتوں میں مغرب سے صبح صادق تک مباح فرمایا گیاہے۔احادیث مبارکہ میں سحری میں عجلت نہ کرنے اور افطار میں تاخیر نہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ سحری میں تاخیر اور افطار میں عجلت سے متعلق کئی احادیث میں صراحت موجود ہے مگر ماہ صیام کے سحر و افطار کے لئے جو نظام الاوقات تیار کئے جاتے ہیں اور جن کی بنیاد پر مساجد سے سائرن کے ذریعہ سحر و افطار کا تعین کیا جاتاہے اس کا احادیث اور عصری علوم کی روشنی میں جائزہ لیں تو یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ یہ احادیث مبارکہ کے بالکل مغائر سحر میں تعجیل اور افطار میں تاخیر پر مبنی ہیں۔ قارئین کرام کو یہ جان کر واقعی حیرت ہوگی کہ خاص کر حیدرآباد و اطراف بلدہ کے لئے جس نظام الاوقات کے مطابق ہم سحر و افطار کرتے ہیں وہ شریعت میں معینہ وقت کے عین مطابق نہیں ہے بلکہ سحر میں تقریباً 22 منٹ تعجیل اور افطار میں تقریباً5-7 منٹ تاخیر پر مبنی ہیں۔سحری صبح صادق تک کرنا قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے مگر احتیاط کے نام پر معینہ وقت میں غیر معمولی تبدیلی کردی گئی ہے حالانکہ نہ ہی قرآن حکیم اور نہ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی تاکید کی ہے۔ سحر میں تاخیر اور افطار میں عجلت کے بجائے ہم سحر میں عجلت اور افطار میں تاخیر کرنے لگ گئے ہیں۔نظام الاوقات مرتب کرنے والے جامعہ عثمانیہ کے پروفیسر نے سحر کے لئے احتیاط کے طور پرصبح کاذب سے 10 منٹ قبل کا وقت مقرر کردیا جبکہ صبح کاذب اور صبح صادق کے درمیان تقریباً12 منٹ کا وقفہ ہوتاہے اس طرح سحری کا وقت تقریباً22 منٹ پیشگی مقرر کردیا گیا ۔ اسی طرح نماز فجر کی اذان بھی صبح کاذب کے ساتھ ہی مقرر کردی گئی ہے‘ البتہ نماز فجر صبح صادق کے آغاز پر شروع کردی جاتی ہے۔ اس لئے ہمیں صبح صادق تک یعنی نماز فجر کے وقت آغاز تک سحر کرنے کا موقع رہتاہے۔ سحر ی کے وقت سے متعلق کئی صحابہ کرام سے احادیث مروی ہیں۔ بخاری شریف میں حضرت بی بی عائشہؓسے روایت ہے کہ حضرت بلالؓ رات رہے سے اذان دے دیا کرتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتومؓ اذان دے ۔ وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے جب تک صبح نہیں ہوتی۔ قاسمؓ نے کہا بلالؓ اور ابن مکتومؓ دونوں کی اذان میں فرق یہ ہوتاکہ ایک اترتا اور ایک چڑھتا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے کہاکہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر آپؐصبح کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے ۔ حضرت انسؓنے کہا میں نے پوچھا سحری میں اور صبح کی اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں پڑھنے کے موافق(بخاری شریف)۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ رات کو اذان دیتے ہیں( تاکہ تہحد پڑھنے والے کھانے کو جائیں اور سحر سے فارغ ہوجائیں) سو تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتومؓکی اذان سنو (اور وہ نابینا تھے‘ جب لوگ کہتے کہ صبح ہوئی صبح ہوئی تب اذان دیتے)۔ سنن ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اذان سنے یعنی صبح کی اور کھانے پینے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو جب تک اپنی جاجت روائی نہ کرے اس برتن کو نہ رکھے۔ترمذی شریف میں حضرت قیس بن طلق بن علی سے روایت ہے ‘ کہا انہوں نے روایت کی مجھ سے میرے باپ نے کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھاتے پیتے رہو شب رمضان میں اور نہ اٹھاؤے تم کوکھانے پر سے چمکتی اور چڑھتی ہوئی صبح یعنی جو مثل نیزے کے سدیھی سفیدی یہاں تک کہ سامنے آوے تمہارے چوڑی روشنی صبح کی جس میں سرخی ہوتی ہے۔صبح کاذب سے 10 منٹ قبل کی احتیاط کے باعث ہم مجموعی طور پر22 منٹ پیشگی ہی سحر ی ختم کررہے ہیں جس کے لئے ہم احتیاط کی حجت کرتے ہیں حالانکہ مذکورہ بالا احادیث سے یہ ثابت ہوتاہے کہ سحر میں تاخیر بھی ہوجائے تو کوئی قباحت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے روزہ میں فرق آتاہے مگر ہم ہیں کہ احتیاط برت کر صبح کاذب سے بھی10 منٹ قبل کھانا پینا ترک کردیتے ہیں۔ہاں احتیاط اتنی کی جاسکتی ہے کہ صبح صادق سے پانچ منٹ قبل کھانے پینے سے ہاتھ روک لیں اور کبھی صبح صادق بھی ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ جہاں تک افطار میں عجلت کا تعلق ہے اس ضمن میں بخاری شریف میں حضرت عمرؓسے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رات اِدھر سے(پورب سے) رخ کرے اور دن اْدھرسے (پچھم سے) پیٹھ موڑے اور سورج ڈوب جائے تو روزہ کے افطار کا وقت آگیا۔سنن ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیشہ دین غالب رہے گا جب تک لوگ روزہ جلدی کھولا کریں گے‘ کیونکہ یہود و نصاریٰ روزہ کھولنے میں دیر کرتے ہیں۔ترمذی شریف میں حضرت سہل بن سعدؓ مروی ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لوگ خیر سے رہیں گے جب تک جلد روزہ کھولا کریں گے۔ترمذی شریف میں حضرت ابی ہریرہؓ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ عزو جل نے میرے سب بندوں میں پیارا میرا وہی بندہ ہے جو بہت جلد روزہ کھولتاہے ۔ ہمیں یہ بات بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ قمری مہینوں میں غروب آفتاب سے پچھلا دن ختم ہوتاہے ۔ رات شروع ہوتی ہے تو یہ اگلی تاریخ کی ہوتی ہے۔مغرب کی اذان اگلے دن کی پہلی اذان ہے اور مغرب کی نماز اگلی تاریخ کی پہلی نماز ہے۔روزہ کا حکم ہے کہ روزے کو رات تک پورا کرو ‘ رات میں دال نہیں کرنا۔افطار کرنے کے بعد مغرب کی اذان کا وقت آتاہے ۔ جب سورج ڈوب جاتاہے تو روزہ افطار ہوجاتاہے۔ اس کے درمیان پانچ سات منٹ کا وقفہ ہوتاہے پھر مغرب کی اذان کا وقت ہوتاہے۔ مولانا محمد اکرم اعوان کی اکرم التفاسیر میں ہے کہ افطار میں بالخصوص ہماری کوتاہی ہوتی ہے ۔ روزے کو اگر آپ اگلی رات کے اندر داخل کردیں گے تو وہ مکروہ ہوجائے گا بلکہ حکم ہے اَتِمّْوالصّےَامَ الیَ الَّیلِ ج رات تک روزے کو پورا کرو‘ اگلی رات میں داخل نہیں کرنا۔ مغرب کی اذان اگلے دن کی پہلی اذان ہے۔ اسلام میں دن شام سے شروع ہوتاہے اور پھر شام پر ختم ہوتاہے ۔ موجودہ نظام الاوقات کے مطابق افطار کا جو وقت مقرر کیا گیاہے اس کے مطابق گویا ہم دوسرے دن میں داخل ہوکر روزہ افطار کررہے ہیں۔یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ صرف دکن میں ہی اس طرح کی احتیاط کی جاتی ہے، ملک کے دیگر علاقوں میں وقت مقررہ پر ہی سحر و افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور وقت کا یہ تعین مسلک کی اساس پر نہیں ہے۔ ممکن ہے نظام الاوقات تیار کرنے والوں کے ذہن میں یہ بات رہے کہ گھڑیوں میں کچھ فرق پایا جاتا ہے اس لئے احتیاط ضروری ہے مگر آج تو سیکنڈ کے بھی سویں حصہ تک کا حساب رہتا ہے اور ہر ایک کے پاس گھڑیاں ہوتی ہیں۔ سیل فونس وغیرہ میں موجود گھڑیاں علاقہ کے اعتبارسے پائے جانے والے فرق کو بھی ملحوظ رکھتی ہیں ، اس لئے یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اب گھڑیاں وقت غلط بتاتی ہیں۔ہمیں محض اس لئے اس غلط روایت کو آگے نہیں بڑھانا چاہئے کہ اس نظام الاوقات کی توثیق ہمارے علمائے سلف نے کی تھی اس لئے اگر اس نظام الاوقات کو درست کرنے کی ہم جرأت نہیں کرسکتے ہیں۔اس کو ہم مسلکی خطوط پر نہیں دیکھنا چاہئے اور نہ ہی اسے انا کا مسئلہ بنانا چاہئے۔
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں دکن کے علمائے کرام کو چاہئے کہ وہ اس نظام الاوقات پر نظر ثانی کریں اور کم از کم آئندہ رمضان تک ایسانظام الاوقات تیار کرے کہدکن کے مسلمان احادیث مبارکہ کی روشنی میں صحیح اوقات میں سحر و افطار کرپائیں۔ مسلکی اختلافات کو بنیاد بناکر احتیاط کے بہانہ کا سہار ا لیتے ہوئے پرانی روش برقرارنہ رکھیں ۔ یاد رہے کہ مذکورہ نظام الاوقات عثمانیہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے تیار کیا تھا لہذا ان کے تیار کردہ اس نظام الاوقات کواحادیث مبارکہ پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔