Friday, May 17, 2024
Homesliderحیدرآباد کے کئی علاقوں کو اب بدبودار آب وہوا کا سامنا

حیدرآباد کے کئی علاقوں کو اب بدبودار آب وہوا کا سامنا

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد: حیدرآباد کے سیلاب زدہ رہائشی علاقوں خصوصا پرانے شہر کے حافظ بابا نگر میں آب ہوا بدبودار ہونے سے عوام کو متلی اور سر درد کے علاوہ دیگر مسائل کی شکایت ہے۔کئی علاقے کےافراد کم سے کم کچھ دن اس علاقے سے باہر نکلنا چاہتے ہیں جب تک کہ نالے بند نہ ہوں اور ان کے گھر دوبارہ رہائش پزیر ہوجائیں۔ عوام نے نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمارے گھروں کی صفائی اور جراثیم کشی میں مدد کرے کیونکہ بارشوں کا سلسلہ تھم جانے کے بعد آب وہوا بدبودار ہوچکی ہے۔ حافظ بابا نگر کے رہائشی علی محمد نے کہاکہ مجھ سمیت اس علاقے کے بیشتر باشندے کیچڑ صاف کرنے کے لئے مزدوروں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔

اگرچہ کئی نامعلوم افراد اورغیر سرکاری تنظیمیں انھیں پیسہ ، خوراک اورکپڑوں کی شکل میں مدد فراہم کررہے ہیں لیکن حکومت کاکام ہنوز باقی ہے ۔ عوام چاہتے ہیں کہ اس علاقے کو رہنے کے قابل بنایا جائے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم کتنی بارگھر کو دھوتے ہیں جس کے باوجود بو نہیں جاتی ہے۔ ہم نے اپنا فرنیچر اورکپڑے باہر پھینک دیئے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے کئی مرتبہ اپناگھر دھویا لیکن اس کے باجود بدبوآ رہی ہے ۔ایک اور مکیں سید حمید نے کہا ہے کہ علاقے کی زیادہ تر خواتین اور بچے علاقے چھوڑ کر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ چلے گئے ہیں۔ حمید نے مزید کہا ہے کہ ہم صرف گھر کی صفائی کے لئے گھر جاتے ہیں لیکن ہم بیت الخلاءکا استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ تمام نکاسی آب کی لائنیں بھری ہوئی ہیں۔

نہ صرف حافظ بابا نگر بلکہ کئی دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں مثل الجبیل کالونی ، غوث نگر ، معین باغ ، اڈی بازار اور تالاب کٹہ کے عوام کو بھی ایسی ہی شکایات ہیں۔ ٹولی چوکی کے ندیم کالونی کی رہائشی نائدہ فاطمہ جو جمعہ کے روز اپنے کرایہ پر مکان خالی کررہی تھیں اس دوران انہوں نے کہا میرا بیٹا بیمار ہے لہذا میں اس طرح کی غیر صحت مند مقام پر نہیں رہ سکتی۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں حافظ بابا نگر اور ندیم کالونی کے مکینوں کے مطابق سیلاب کا پانی گلیوں سے نکل گیا ہے لیکن نالے جوں کہ توں ہیں۔

متاثرہ علاقوں کے عوام کا مطالبہ ہے کہ ان کے گھروں کو رہنے کے قابل بنایا جائے۔حافظ بابا نگر کے رہائشی کم سے کم کچھ دن اس علاقے سے باہر نکلنا چاہتے ہیں جب تک کہ نالے بند نہ ہوں اور ان کے گھر دوبارہ رہنے کے قابل نہ ہوجائیں۔ دراصل بیشتر خواتین اور بچے پہلے ہی علاقے چھوڑکر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ چلے گئے ہیں