Sunday, May 19, 2024
Homeتازہ ترین خبریںدارالعلوم دیوبند اور جمعیة علماءہند کے بغیر ہندوستان کی آزادی کی تاریخ...

دارالعلوم دیوبند اور جمعیة علماءہند کے بغیر ہندوستان کی آزادی کی تاریخ نامکمل : مولانا ارشد مدنی

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے جمعیة علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ملک کی آزادی دارالعلوم دیوبند اورجمعة علماءہند کے تذکروں کے بغیر نامکمل ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر تحریر ایک مضمون میں مدنی نے مذکور اداروں اور اس سے وابستہ علماءکا تذکرہ کیا اور انکی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔

ارشد مدنی نے کہا کہ جدوجہد آزادی ہی نہیں ملک کی کوئی بھی تاریخ ہندوستان کے علمائے کرام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، خواہ وہ ملی یا قومی قیادت و سیاست ہو یا آزادی وطن کے لئے میدان جنگ، کسی تحریک کی قیادت ہو یا پھر کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت میں لوگوں کی مدد و غمگساری، ہر میدان میں علماءنے اہم کارنامے انجام دئے ہیں اور حکومتِ وقت کے سامنے سینہ سپر ہوکر حق اور سچ بات رکھی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ایک بڑی تاریخی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کی آزاد ی کی تحریک علماءاور مسلمانوں نے شروع کی تھی اور یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کروایا جب اس بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں رہا تھا، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت علماءنے ہی بلندکیا تھا اور جنگ آزادی کا صوربھی انہوں نے ہی پھونکا تھا۔

مولانا نے جنگ آزادی کی تاریخ سے لاعلمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ءمیں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے ناواقفیت پر مبنی ہے ۔ آزادی کی تاریخ 1857سے نہیں بلکہ 1799ءمیں اس وقت شروع ہوئی جب سلطان ٹیپو شہیدؒ نے سرنگاپٹم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا، جس وقت ان کے خون میں لت پت لاش پر انگریز فوجی نے کھڑے ہوکر یہ بات کہی تھی کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے اس کے بعد ہی انگریزیہ کہنے کی ہمت پیدا کرپائے کہ اب کوئی طاقت ہمارا مقابلہ کرنے والی، ہمارے پنجے میں پنجہ ڈالنے والی نہیں ہے اور پھر انہوں نے عملی طورپرچھوٹے چھوٹے نوابوں اور راجاؤں کو شکست دیکر ان کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کردیا۔

مولانا نے کہا کہ ٹیپو سلطانؒ کی شہادت اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے بعد علمائے کرام نے غلامی کی آہٹ کو محسوس کرلیا تھا اور اس کے بعد سے ہی جہادِ آزادی کاآغاز ہوا، جب انگریز نے 1803 میں دہلی کے اندر یہ اعلان کیا کہ خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا لیکن آج سے حکم ہمارا ہے ، اس دن اس ملک کے سب سے بڑے عالم دین اور خدارسیدہ بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بڑے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ نے دلّی میں یہ فتوی دیا کہ آج ہمارا ملک غلام ہوگیا اور اس ملک کو آزاد کروانے کے لئے جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے یہ جراءتمندانہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا کہ اس عالم دین کے علاوہ ہندوستان کے اندر کوئی ایسا نہیں تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقابلہ میں اپنی زبان سے آزادی وطن کے لیے جہادکا اعلان کرسکتا تھا۔اس فتویٰ کی پاداش میں ان کو بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، انھیں زہر دے دیا گیا، ان کی جائداد کو قرق کرلیا گیا، ان کی آنکھوں کی بینائی اس زہر سے جاتی رہی، ان کو دلّی شہر سے در بدرکردیا گیا،وہ ان تمام سخت ترین حالات میں بھی انھوں نے اپنی موت سے پہلے دو روحانی شاگردپیدا کردیئے ، ایک حضرت سیّد احمد شہید رائے بریلویؒ اور دوسرے شاہ اسماعیل شہیدؒ ان لوگوں نے پورے ملک کے دورے کئے اور مسلمانوں سے جہاد کی بیعت اور اس کا عہد لیا کہ وہ ہمارے ساتھ ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردیں گے ۔