Sunday, May 19, 2024
Homeٹرینڈنگدشا عصمت ریزی ، متعصب میڈیا اور نچلی سطح کے سیاست دانوں...

دشا عصمت ریزی ، متعصب میڈیا اور نچلی سطح کے سیاست دانوں کی گندی سوچ آشکار

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ بی جے پی حکومت جس نے نئے ہندوستان کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس میں اب کچھ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ حیدرآباد عصمت ریزی واقعہ کو مذہب اور فرقہ پرستی کی آنکھ سے دیکھنے کی نہ صرف ناپاک کوشش کی گئی بلکہ اس واقعہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی انسانیت سے گری ہوئی حرکت بھی کی گئی ہے ۔حیدرآباد میں جانورں کی ڈاکٹر کے ساتھ کچھ درندوں نے جانوروں جیسے سلوک کیا اور اس واقعے پورے ہندوستان کو پھر ایک مرتبہ ہلاکر رکھ دیا ہے لیکن سوشل میڈیا پرکچھ لوگ اس معاملے کو بھی ہندو اور مسلمان کا رنگ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔

 وجہ یہ ہے کہ پولیس نے جن چار درندوں کو گرفتار کیا ہے، ان میں سے ایک مسلمانوں نام والا شخص بھی ہے۔ ٹوئٹر پر تو ریپ کی شکار مقتول خاتون کوانصاف دلانے کے نام پر #, ہنگ محمد پاشاہ #, جسٹس پر دشا اور اس جیسے کئی اور ہیش ٹیگ تک چلائے جارہے ہیں، جن کا واحد مقصد مسلمانوں کو عصمت ریزی کرنے والا قرار دیتے ہوئے اسے مسلمانوں کی ایک منصوبہ بند حرکت تک بتایا گیا۔ جبکہ کچھ لوگوں نے اپنے ٹوئٹ میں مسلم ملزم کے نام لکھتے ہوئے، اس کے ساتھ گرفتار ہوئے دیگر تین ملزمین کو پولےس کی جانب سے مقدمے میں توازان پیدا کرنا قرار دیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک اس معاملے میں جو چار لوگ گرفتار کیے گئے ہیں، ان میں ملزم صرف مسلمان ہے باقی تین لوگوں کو پولےس نے جھوٹے طور پر گرفتار کیا ہے۔

مذکورہ بالا ہیش ٹیگس کے تحت جن قابلِ احترام شخصیات نے ٹوئٹر پر مظلومہ ومقتولہ کے لئے انصاف کا علم بلند کیا ہے، ان میں حیدرآباد کے گوشہ محل اسمبلی حلقے سے رکن اسمبلی ر راجہ سنگھ لودھ المعروف ٹی راجا سنگھ بھی شامل ہیں۔ یہ وہی شرپسند ہے جس نے اپنی دیش بھکتی کی بنا پر رواں سال جنوری میں مسلم رکن اسمبلی اور عارضی اسپیکر کے مسلمان ہونے کی وجہ سے حلف لینے تک سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت اس کی جو وجہ اس نے بیان کی تھی وہ یہ تھی کہ مقامی جماعت ہندووں کے خلاف بولتی ہے۔

 راجہ سنگھ کی دیش بھکتی کے قصوں سے پورا انٹرنیٹ بھرا پڑا ہے۔ اس کے ٹوئٹر پر تین لاکھ سے زائد فالور ہیں۔ 29 نومبر کو اس ضمن میں کیے گیے اپنے ٹوئٹ میں اس نے ایک ملزم کی گرفتاری کی خبر دی ہے، جس کا نام جلی حرفوں میں محمد لکھا ہے۔ اسی تعلق سے اس نے ایک ویڈیو بھی ٹوئٹر پر اپلوڈ کیا ہے، جس میں کہا ہے کہ ہمیں امید بھی تھی کہ اس معاملے میں محمد جیسا شخص ہی ملوث ہوگا۔

 ایک اور معزز شخصیت ہیں سریش چوہان۔ یہ موصوف دیش کے سب سے بڑے دیش بھکت ٹی وی چینل سدرشن چینل کے روحِ رواں ہیں۔ مذکورہ بالا ہیش ٹیگس کے تحت کیے گیے اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ حیدرآباد پولےس نے محمد کے بعد توازن کرنے کے لئے دو ہندووں کوجبراً پھنسایا ہے۔ کیا یہ اویسی کے دباومیں کیا گیا؟ میں اس کی جانچ کی مانگ کرتا ہوں۔ اس کا خدشہ کچھ دن پہلے میں نے اعلانیہ طور پر ظاہر کیا تھا۔

 سریش چوہان کے نزدیک محمد پاشا کے علاوہ جو دیگر ملزمین گرفتار کیے گئے ہیں انہیں پولےس نے جبراً پھنسایا ہے اور یہ اویسی کی ایماءپر ہوا ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور بھاری بھرکم شخص ہیں امیت مالویہ، یہ موصوف بی جے پی آئی ٹی سیل کے روحِ رواں ہیں اور کوئی خبر یا پوسٹ کے وائرل کرنے کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ پھر چاہے وہ خبر یا پوسٹ ’فیک‘ (فرضی ) ہی کیوں نہ ہو۔ یوں بھی یہ بات اب ملکی سطح پر تسلیم کی جانے لگی ہے کہ جھوٹی خبروں کو پھیلانے میں بی جے پی آئی ٹی سیل سب کا استاد ہے۔# ہنگ محمد پاشاہ نامی ہیش ٹیگ کے تحت یہ موصوف اس معاملے پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں لیکن ملزمین کی فہرست میں وہ صرف ایک نام محمد پاشا تحریر کرتے ہیں۔

مذکورہ بالا افراد کے ضمن میں یہ بات محض اتفاق ہوگی کہ اناوکے کلدیپ سنگھ سینگر اور شاہجہاں پور کے سوامی چنمیانند کا تعلق بھی بی جے پی سے ہے۔ جن حضرات کے ٹوئٹ کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ ایک مثال کے طور پر ہے۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ چاہے فیس بک ہو یا ٹوئٹر، چاہے یوٹیوب ہو یا واٹس ایپ کے گروپ یہاں تک کہ کچھ ویب سائٹ پر بھی محمد پاشا ہی چھایا ہوا ہے۔

 مثال کے طور پر سوراجیہ مگ نامی نامی ویب سائٹ نے اس بارے میں پوری ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس نے محمد پاشا کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے ماسٹر مائنڈ قرار دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مبینہ دیش بھکتوں، سنسکاریوں اور عورتوں کی عزت کے رکھوالوں کی جانب سے جس طرح پاشا کے علاوہ دیگر ملزمین کی درپردہ حمایت کی جارہی ہے، کیا کسی مسلمان کی جانب کسی نے ایسی حرکت کی ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ پھر یہ دیش بھکت عصمت ریزی جیسے گھناونے، غیرانسانی اور درندوں کو مات دینے والی حرکت پر نوین، کیشول اور شیوا کونظر انداز کیوں کر رہے ہیں۔

 دراصل ایسے لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے عوام کو یہ باورکرانا چاہتے ہیں کہ عصمت اور قتل جیسا قبیح عمل کوئی مسلمان ہی کرسکتا ہے۔ جبکہ یہ لوگ بھول جاتے ہیں جس دن حیدرآباد میں جانوروں کے ڈاکٹر کے ساتھ کچھ لوگ درندگی کررہے تھے، اسی دن جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی میں قانون کی طالبہ ایک آدیواسی لڑکی ساتھ درجن بھر لوگوں نے اجتماعی عصمت ریزی کی۔ پولیس نے ان تمام درندوں کو گرفتار بھی کیا ہے ، جن میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔

 اسی طرح 30نومبر کو تامل ناڈو کے کوئمبٹور میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک برتھ ڈے منارہی ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ6 لوگوں نے اجتماعی عصمت دری کی۔ پولےس نے انہیں بھی گرفتار کیا ہے،ان میں سے بھی کوئی مسلمان نہیں ہے۔ اسی 30نومبر کو ہی یوپی کے سمبھل میں ایک 16سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کرکے اسے زندہ جلانے کی کوشش کی گئی، جس میں لڑکی 85فیصد جل چکی ہے۔ اس میں بھی کوئی مسلمان نہیں ہے۔اس طرح کے درجنوں مقدمات اور واقعات ہیں، جن میں ملزمین میں ایک بھی مسلمان نہیں ملتا ہے۔