Friday, May 17, 2024
Homeبین الاقوامیدنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا کی نوجوان نسل کی...

دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا کی نوجوان نسل کی بے راہ روی

شادی سے پہلے جنسی تعلقات کو جرم قراردینے والے قانون کے خلاف پرتشدد مظاہرے

- Advertisement -
- Advertisement -

جکارتہ ۔ دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کا اعزاز رکھنے والے انڈونیشیا کی نوجوان نسل کس قدر بے راہ روی کا شکار ہوچکی ہے اس کا اندازہ کرنا اب مشکل نہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے ازدواجی زندگی سے قبل جنسی تعلقات پر سزائے قید کے قانون کے اعلان کے بعد طلبہ نے اس قانون پر اپنی ناراضگی کا صرف اظہار ہی نہیں کیا ہے بلکہ اس قانون کے نفاذ کے خلاف سڑکوں پر پرتشدد مظاہروں کے علاوہ پولیس کے ساتھ پرتصادم صورتحال بھی اختیار کرلیا ہے۔

انڈونیشیا میں نوجوان نسل، خاص کر طلبہ جس مجوزہ قانون کے خلاف سماجی بغاوت پر اتر آئے ہیں، اس کے تحت اب بغیر شادی کے آپس میں جنسی روابط قائم کرنے والے شہریوں کو سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ جکارتہ میں ہوئے مظاہرے تو اتنے پرتشدد ہو گئے کہ گلیوں میں اور سڑکوں پر مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم کے باعث صورت حال واضح طور پر بدامنی کا شکار ہو گئی اور مجموعی طور پر 300 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا میں اس نئے قانون کے مطابق اب غیر ازدواجی جنسی رابطے ثابت ہو جانے پر ایسے کسی بھی جسمانی تعلق میں ملوث افراد کو چھ ماہ تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ یہ سزا اب تک مروجہ قانون کے مقابلے میں بہت سخت ہے۔

اسی قانون کے تحت اب مناسب طبی وجوہات کے بغیر اسقاط حمل کروانے پر بھی چار سال تک سزائے قید سنائی جا سکے گی۔ مزید یہ کہ ملکی صدر کی توہین کرنا بھی آئندہ قانوناﹰ ایک ایسا جرم ہو گا جس کے مرتکب افراد کو جیل بھیجا جا سکے گا۔

جکارتہ میں اس مجوزہ قانون کے خلاف پارلیمنٹ کے سامنے ہوئے مظاہرے میں تین ہزار سے زائد طلبہ نے حصہ لیا۔ جب مظاہرین بدامنی پر اتر آئے، تو پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

جکارتہ پولیس کے سربراہ پرامونو کے مطابق امن عامہ کو یقینی بنانے کے لیے کی گئی اس کارروائی کے دوران 300 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سے کم از کم 254 طلبہ ہیں جنہیں علاج کے لیے مختلف دواخانوں میں پہنچا دیا گیا۔ پولیس چیف پرامونو کے مطابق بدامنی کے ان واقعات کے دوران کم از کم 39 پولیس عہدیدار بھی زخمی ہو گئے۔

خبروں کے مطابق انڈونیشیا میں اسی نئے قانون کے خلاف عوامی مظاہرے دارالحکومت جکارتہ کے علاوہ کئی دیگر شہروں اور ملکی جزائر پر بھی دیکھنے میں آئے۔ حکومت کے ابتدائی ارادوں کے مطابق  پارلیمنٹ کو اس نئے قانون کے مسودے کی منظوری 24 ستمبر کو دینا تھی، لیکن پھر صدر جوکو ویدودو کی درخواست پر یہ پارلیمانی رائے شماری مؤخر کر دی گئی تھی۔

انڈونیشیا میں جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن یہاں  طلبہ کے  مظاہروں کی بھی اپنی ہی ایک تاریخ ہے۔ 1998ء میں ایسے ہی طلبہ مظاہروں کے بعد 1967ء سے برسراقتدار صدر محمد سوہارتو کو صدارتی عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ مجموعہ جزائر پر مشتمل ریاست انڈونیشیا کی جملہ  آبادی 260 ملین سے زائد ہے اور انڈونیشیائی  عوام میں سے 90 فیصد مسلمان ہیں۔