Thursday, May 16, 2024
Homeدیگرنقطۂ نظردینی مدارس اور امت مسلمہ

دینی مدارس اور امت مسلمہ

علامہ اقبال ؒ نے دینی مدار س کے بارے میں رائے دی تھی 
’’ یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی ہے، اِن مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، مسلمانوں کے بچوں کو اِنہی مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ مْلا اور درویش نہ رہے، اگر مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی 800 برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے سواء وہاں اسلام کے پیرو اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔‘‘

- Advertisement -
- Advertisement -

مفکر ملت علامہ اقبالؒ نے کبھی کہا تھا ’’ یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی ہے، اِن مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، مسلمانوں کے بچوں کو اِنہی مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ مْلا اور درویش نہ رہے، اگر مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی 800 برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے سواء وہاں اسلام کے پیرو اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔‘‘ شائد برصغیر ہند میں اب ایسی صورتحال پیدا ہونے کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں کہ یہاں بھی شعائر اسلام کے کھنڈرات، آثار اور باقیات تو ملیں گے مگر اسلامی تمدن کے نقوش ناپید ہوجائیں گے۔ مسلمان تو باقی رہیں گے مگر ان میں اسلام باقی نہ رہے گا۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے تئیں ہماری بے رغبتی حد سے زیادہ بڑھتی جارہی ہے حالانکہ ان مدارس کی پہلے سے زیادہ ضرورت باقی ہے۔ آج سے 20-30 برس قبل مسلم امہ کے بیشتر بچے اردو میڈیم مدارس میں تعلیم پاتے تھے جہاں ایک گھنٹہ دینی تعلیم کا بھی ہوا کرتا تھا اور ہر مسجد میں ایک صباحیہ مدرسہ چلا کرتا تھا جہاں ہمارے بچے قرآن مجید اور دین کی تعلیم پایا کرتے تھے مگر رفتہ رفتہ انگریزی میڈیم تعلیم کے فروغ کے نیتجہ میں صباحیہ مدرسوں کا بھی نظم ختم ہوگیا چونکہ ان انگریزی میڈیم اسکول والوں نے ایسے اوقات رکھے کہ بچوں کو صباحیہ مدرسوں کو بھیجنے کا موقع ہی نہ ملے اور بچوں کو اسکول کی تعلیم میں اس قدر زیادہ منہمک و مشغول کردیا گیا کہ انہیں دینی تعلیم پانے کی فرصت ہی نہ ملے۔ اس لئے فی زمانہ اپنے بچوں میں دین کا شعور بیدار کرنے کے لئے خانگی معلم کو رکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ دینی مدارس ہی کی وجہ سے ہمیں ایسے معلم دستیاب ہوسکیں گے جو ہماری نئی نسل کو دین اسلام کی بنیادی تعلیم سے بہرہ ور کرسکیں گے۔ ہم نے یہ فراموش کردیا ہے کہ ایک دور ایسا بھی تھا کہ شہر حیدرآباد میں ماہ صیام میں صلوٰۃالتروایح میں قرآن مجید کی تکمیل کے لئے حفاظ مقامی طور پر دستیاب نہیں ہوا کرتے تھے اور ہمیں بیرون ریاست کے حفاظ پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ مکہ مسجد میں ماہ صیام سے قبل بیرون ریاست کے حفاظ کو مدعو کیا جاتا تھا تاکہ ان کا انتخاب کیا جاسکے مگر آج دینی مدارس کا جال پھیلنے کے باعث ہی نہ صرف حیدرآباد بلکہ مواضعات میں بھی حفاظ کرام باآسانی دستیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کو مسلمانوں کے باقی رہنے کا کوئی افسوس نہیں رہا ہے بلکہ انہیں ہمیشہ سے یہ بات کھٹکتی رہے کہ ان میں ایمان باقی نہ رہے اور وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ جب تک مسلمانوں میں دینی مدارس کا نظم باقی رہے گا ان کا ایمان تازہ رہے گا اور ان کے دلوں سے ایمان کو نہیں نکالا جاسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان دینی مدارس کے خلاف ہمیشہ سے سازشیں کرتے رہے۔ امریکہ میں ٹریڈ سنٹر پر حملہ کے بعد سے ان دشمن طاقتوں کو ایک موقع حاصل ہوا کہ ان دینی مدارس کی شہ رگ کاٹ دی جائے جس کے لئے دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے خاص کر امریکہ و یورپ اور خلیج کے مخیر اصحاب اور خیراتی اداروں پر تحدیدات عائد کرنا شروع کردیں اور ان کے ذریعہ دی جانے والی امداد کو مسدود کردی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بر صغیر ہند کے دینی مدارس کو بیرون ملک سے امداد کے راستے محدود بلکہ ختم ہوگئے۔ دینی مدارس کے عاملین اور سفراء امریکہ و یورپ کے بڑے شہروں اور خلیجی ممالک کا سفر کرتے ہوئے امداد حاصل کیا کرتے تھے مگر اب ان مقامات پر ان سے ملاقات کرنے سے بھی لوگ گریزکرنے لگے۔ دینی مدارس کے مصارف کا بیشتر حصہ بیرون ملک کی امداد پر منحصر تھا مگر اس امداد سے محرومی کے باعث ان کا کامل انحصار مقامی امداد پر ہوگیا مگر اندرون ملک ایسی تحریکیں اٹھیں کہ زکوٰۃ و صدقات اور عطیات کی ترجیحات بدل گئیں اور ہمارے متمول حضرات اپنی امداد دینی مدارس کو دینے کی بجائے ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کی عصری تعلیم میں اعانت کرنے والے اداروں کو دینا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں یہ مدارس اپنے مصارف کو کم کرنے پر مجبور ہوگئے جس کے لئے انہیں جہاں اساتذہ کی تعداد کو گھٹانا پڑا وہیں انہیں طلبۂ کی تعداد میں بھی تخفیف کرنا پڑا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جن مدارس دینیہ کا وجود ملت اسلامیہ کی زکوٰۃ، صدقات، خیرات و عطیات سے ہی ہے وہ اب ملت اسلامیہ کی بے رخی اور بے توجہی کا شکار بنتے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مدارس میں طلبۂ کی تعداد میں اضافہ کی بجائے گراوٹ آنا شروع ہوگئی ہے۔ آج سے 10 برس قبل ان مدارس میں بچوں کی جتنی تعداد تھی آج بیشتر مدارس میں اس کی نصف تعداد بھی باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان مدارس کے مالی وسائل یکے بعد دیگر ختم ہوتے جارہے ہیں۔ دینی مدارس کے بدخواہ ملت میں بھی موجود رہے ہیں اور وہ دانستہ اور نادانستہ طور پر ان مدارس کے خلاف مہم چلانے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ کبھی ان مدارس کے اساتذہ کی بداعمالیوں کو نشانہ بنایا جاتا تو کبھی ان مدارس کے نظماء کی پر آسائش زندگیوں کو اچھالا جاتا۔ دینی مدارس کے ذمہ داروں پر کفاف کے نام پر یتیموں کا مال ہڑپ کرلینے کا الزام عائد کیا جاتا۔ یقیناً کچھ اساتذہ دینی مدارس اور کچھ ذمہ داران دینی مدارس سے ایسی کچھ حرکتیں سرزد ہوئی ہیں جو انہیں زیب نہیں دیتیں مگر اکا دکا واقعات کو بنیاد بناکر دینی مدارس کے خلاف مہم جوئی ملت اسلامیہ کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ ہم ان خامیوں کو دور کرنے کی اجتماعی کوشش کرتے اور خود بھی ان دینی مدارس کی نظامت میں شامل ہوکر اصلاح کی کوشش کرتے مگر ہم نے صرف تنقید کو اپنا وطیرہ بنالیا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دینی مدارس کے خلاف وہی لوگ زیادہ بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں جنہوں نے کبھی بھی ان مدارس کی امداد نہیں کی مگر اس مخالف پروپگنڈہ کا اثر ملت کے ان بہی خواہوں پر ضرور ہوا جو ان مدارس کی امداد کیا کرتے تھے۔ ہمارے دانشور طبقہ کی جانب سے عصری تعلیم کی ضرورت پر بہت کچھ تاویلات پیش کی جانے لگی ہے اور ملت کی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کروانے میں ہی خیر کا پہلو تلاش کیا گیا جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم زکوٰۃ، صدقات و عطیات میں ان مدات کا خیال رکھتے جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ بیشک ہمیں ملت کی عصری تعلیم کا بھی خیال رکھنا ہوگا اور اس کے لئے اپنی حلال کی کمائیوں میں سے کچھ حصہ نکالنا ہوگا۔ اگر اس میں توازن کو برقرار کھا جائے اور ان تمام مدات پر ضرورت کے لحاظ سے تصرف کیا جائے تو یقیناً ملت کی ہمہ جہتی ترقی ہوگی۔ اس لئے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں ہم ملت کی عصری تعلیم پر توجہ دیں وہیں ان دینی مدارس کے تحفظ کا بھی خیال رکھیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ دینی مدارس ناپید ہوتے جائیں گے اور پھر ہمیں اپنی مساجد کے لئے امام و خطیب اور موذن بھی نہ ملنے لگیں گے اور ہمارے بچوں کی دینی تربیت کے لئے کوئی مدرس دستیاب نہ ہوگا۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے انداز کلام کے تو ہم دل سے معترف ہیں مگر ہماری یہ بد بختی ہے کہ ان کے کلام کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے بھی ناسمجھی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ماضی میں کی گئی ملت اسلامیہ کی غضبناک کوتاہی، غفلت اور نادانی اور اس کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے بڑی درواندیشی سے کام لیا اور اپنے کلام کے ذریعہ زوال پذیر مسلم امہ کو پھر سے عروج کی منزلیں طئے کرنے کی ترغیب دی اور منکرات، مکروہات اور ممنوعات سے پرہیز کرنے اور ایک نئے عزم کے ساتھ ملت کی شیرازہ بندی کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے ان دینی مدارس کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا مشورہ دیا تھا جس کی پاسداری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ملت کی نئی نسل کی عصری تعلیم کے لئے مالی وسائل جوڑنے کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے استحکام کا بھی خیال رکھنا ہوگا اور زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کی اجرائی میں توازن کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔