Saturday, May 18, 2024
Homeتلنگانہسال2019 میں ریاست تلنگانہ میں پیش آنے والے اہم واقعات

سال2019 میں ریاست تلنگانہ میں پیش آنے والے اہم واقعات

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد: سال 2019 تلنگانہ اور اس کی حکمراں جماعت تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) کے لئے ملا جلا رہا۔اس سال ریاست تلنگانہ اور ٹی آر ایس حکومت میں کیا کیا ہوا اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ اور ٹی آر ایس کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کو کچھ سخت چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا،لیکن آخر کار وہ ان پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔

لوک سبھا انتخابات کے نتائج راؤ کے لئے سب سے بڑی مایوسی کے طور پر سامنے آئے،جنہوں نے بی جے پی اور کانگریس دونوں کے متبادل کے طور پر فیڈرل فرنٹ کے خیال کو متحرک کر دیا تھا،اور مر کز میں کلیدی کر دار پر نظر ڈال رہے تھے۔

بی جے پی نے لوک سبھا میں اکثریت کے ساتھ،نہ صرف کے سی آر کے نام سے مشہور راؤ کی تمام امیدوں کو چکنا چور کر دیا،بلکہ ریاست میں چار نشستیں جیت کر ٹی آر ایس کر حیران کر دیا،جبکہ کانگریس نے بھی تین سیٹیں جیت لیں۔ٹی آر ایس کو کلین سوئپ (اپنے لئے 16نشستیں اور اس کے اتحادی اے آئی ایم آئی ایم کے لئے ایک سیٹ) کی توقع تھی۔

کے سی آر کو بھی ذاتی دھچکا لگا،کیونکہ ان کی بیٹی کے کویتا بی جے پی کے ڈی اراوند سے نظام آباد لوک سبھا حلقہ سے ہا ر گئیں۔

کے سی آر،جنہوں نے دسمبر 2018 میں دوسری بار وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا،نے فروری میں 10وزراء کو شامل کرکے دو رکنی کابینہ میں توسیع کی۔اور ستمبر میں اپنے بیٹے کے ٹی راما راؤ اور اپنے بھتیجے ہریش راؤ کو کابینہ میں شامل کیا۔

ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد پہلی بار،کے سی آر نے دو خواتین وزیروں کو کابینہ میں شامل کرکے خواتین کو نمائندگی دی۔

کے سی آر نے اپوزیشن کو تقریبا ً مسترد کر دیا،کیونکہ کانگریس کے 19 میں سے 12ایم ایل اے کانگریس سے الگ ہو ئے اور حکمراں جماعت میں ضم ہو گئے،اس کے نتیجے میں،کانگریس،119رکنی تلنگانہ اسمبلی میں اہم اپوزیشن کی حیثیت سے محروم ہو گئی۔

ٹی آر ایس نے اکتوبر کے ضمنی انتخاب میں حضور نگر میں کانگریس سے مقابلہ کیا تھا۔حکمراں جماعت نے 43,358 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے ضمنی انتخاب جیت لیا۔ضمنی انتخاب،لوک سبھا انتخابات کے بعد کانگریس کے ریاستی سربراہ اتم کمار ریڈی کیایم پی بن جانے کے پرحضور نگر نشست سے استعفیٰ کے بعد منعقد ہوئے۔

اس سے قبل جون میں،کے سی آر نے کالیشورم کو قوم کے لئے وقف کیا تھا،جسے دنیا کی سب سے بڑی ملٹی اسٹیج،ملٹی پرپز لفٹ آبپاشی پروجیکٹ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔دریائے گوداوری کے اس پار،اس پروجیکٹ کا پانی آدھے کلو میٹر کی بلندی تک بڑھ جائے گا۔یہ ایک سال میں دو فصلوں کے لئے 45 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے،جو ریاست کے پینے کے پانی کی 70 فیصد ضروریات کو پورا کرتا ہے اور صنعت کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔

اس پروجیکٹ کا افتتاح،جس میں 80,000 کروڑ روپئے کی لاگت آئے گی،ہندوستان کی سب سے کم عمر ریاست کی طرف سے ایک کروڑ ایکڑ اراضی کو سیراب کرکے ’بنگارو[تلنگانہ یا سوارنہ تلنگانہ کے مقصد کے حصول کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔

اپریل میں انٹر میڈیٹ کے طلباء (گیارہویں اور بارہویں جماعت) کے خود کشی کے رحجان نے ٹی آر ایس کو اپنی وسری معیاد میں حکام کی طرف سے پہلا بڑا چیلنج دیاگیا تھا۔بورڈ آف انٹر میڈیٹ ایجو کیشن کے ذریعہ جوابی شٹوں کا اندازہ کرنے اور نتائج پر کاروائی کرنے کے سبب 23طلباء نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

اس سے اپوزیشن جماعتوں اور طلباء تنطیموں نے بڑے پیمانے پر عوامی غم و غصہ اور بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا۔بعد میں کے سی آر نے تمام ناکام طلباء کی جوابی شیٹوں کی مفت تصدیق کا اعلان کیا۔جوابی پرچوں کی دوبارہ تقثیق کے بعد،1,137 طلباء،جنہیں پہلے ”فیل‘[ قرار دیا گیا تھا،نے امتحانات کو کلئیر کر دیا۔

کے سی آر کے لئے سب سے بڑا چیلنج اکتوبر میں اس وقت سامنے آیا،جب تلنگانہ اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کار پوریشن آ ٹی ایس آر ٹی سی) کے تقریبا 50,000 ملازمین نے حکومت کے ساتھ ٹرانسپورٹ باڈی کے انضمام سمیت اپنے مطالبات پر ہڑتال کی۔ملازمین کے رویہ سے مشتعل،کے سی آر نے ان کے مطالبات کو مسترد کر دیا اور انہیں ڈیوٹی پر واپس آنے کا حکم دیا،جب انہوں نے انکار کر دیا تو وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ وہ اپنی ملازمت سے محروم ہو گئے ہیں۔

اس ہڑ تال کی تمام اپوزیشن جماعتوں اور متعدد اجتماعی تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔پانچ سالوں میں پہلی بار،کے سی آر کو متحدہ اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا۔

ٹی ایس آر ٹی سی یونین کے رہنماؤں کی طرف سے سیاسی بحران پیدا کرنے کی دمکیاں نے کے سی آر کو ناراض کر دیا،جنہوں نے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور یہاں تک کے ٹی ایس آر ٹی سی کے آدھی تنخواہ دینے کا اعلان کیا۔

پریشان ملازمین نے کود کشی کرلی،جبکہ قریب 20دیگر افراد دل کی دل کا دورہ پڑ نے سے فوت ہو گئے۔آخر کار ملازمین نے اپنی دو ماہ کی ہڑتال کو کالعدم قار دے دیا،لیکن کے سی آر نے انہیں واپس لینے سے انکار کر دیا۔

ٹی آر ایس حکومت کو ستمبر میں ایک دھچکا لگا،جب ہائی کورٹ نے نئی اسمبلی عمارت کی تعمیر لے لئے ورثہ کا ڈھانچہ ارم منزل کو نہ گرانے کی ہدایت کی۔کے سی آر نے سو کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے نئے لیجسلیچر کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھا،تاہم،ورثہ کے کارکنوں اور متعلقہ شہریوں کی طرف سے دائر درخواستوں پر،عدالت نے ریاستی کابینہ کا ارم منزل کو گرانے اور قانون ساز ی کا احاطہ بنانے کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔

ایک سال کے دوران،حیدرآباد نے عالمی دگگجوؤں کے ساتھ شہر میں اپنی موجودگی میں توسیع کرتے ہوئے نئی سرمایہ کاری کو راغب کیا۔

امریکہ میں مقیم ای کامرس کی بڑی کمپنی ایمیزون نے حیدرآباد میں دنیا کی سب سے بڑے آفس عمارت کا افتتاح کیا۔جبکہ چینے اسمارٹ فون بنانے والی کمپنی ون پلس نے بھی شہر میں اپنا سب سے بڑا آر اینڈ بی سنٹر شروع کیا۔امریکہ میں قائم ٹیک کمپنیاں،انٹیل نے پیر کو حیدرآباد میں اپنے نئے ڈیزائن اور انجنئرنگ سنٹر کی رانمائی کی۔

تاہم،نومبر میں ایک خاتون ویٹر نری ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت دری اور قتل سے ریاستی حکومت کو جھٹکا لگا۔قومی غم و غصہ کو جنم دینے والے اس واقعے نے حیدرآباد کے امیج کو خراب کرنے کی دھمکی دی تھی۔تاہم پولیس نے 6دسمبر کو چاروں ملزمین کو مبئنہ طور پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے گولی مار دی۔اگر چہ کہ بہت سے لوگوں نے تیز رفتار انصاف کو یقینی بنانے پر پولیس کی تعریف کی،لیکن حقوق کمیشن کے لوگوں نے عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے۔جس کے بعد اس واقعے کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا۔