Sunday, May 19, 2024
Homeبین الاقوامیسعودی ،ترکی ،ایران اور قطر کی جانب سے افریقہ میں مساجد کی...

سعودی ،ترکی ،ایران اور قطر کی جانب سے افریقہ میں مساجد کی تعمیرات

اسلام کی ترویج  یا اثرورسوخ کے حصول کی دوڑ

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔افریقہ میں ان دنوں سینکڑوں مساجد تعمیر ہو رہی ہیں جن کے لیے سرمایہ زیادہ تر سعودی عرب، ترکی اور ایران مہیا کر رہے ہیں۔ افریقی ممالک میں مساجد کی تعمیرات اور ان کے لئے خلیجی ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری اس وقت ایک نیا موضوع بنا ہوا ہے۔    نومبر میں جبوتی میں عبدالحامد دوم مسجد کا افتتاح ہوا۔ یہ تیرہ ہزار مربع میٹرس پر محیط مسجد ہےجس میں  چھ ہزار نمازیوں کے لیے جگہ  موجود ہے اور اس شاندار مسجد کے دو مینار 46میٹر بلند ہیں۔ اس کی دیواروں پر سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی خطاطی ہے۔

 مسجد کا گنبد تابنے کی ملمع کاری سے مزین ہے اور مسجد کے اندر ترک مساجد کی نمائندگی کرتا فانوس بتا دیتا ہے کہ یہ مسجد ترکی کی مدد سے بنی ہے۔اس مسجد کی تعمیر میں ترکی کے ڈائریکٹوریٹ برائے مذہبی امور نے سرمایہ مہیا کیا ہے۔ دیانت کے نام سے معروف اس ادارے کا خیال ہے کہ یہ مسجد جبوتی اور ترکی کے درمیان بہترین تعلقات کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس مسجد کے لیے زیادہ تر تعمیراتی اشیا ترکی سے درآمد کیا گیا ہے جس میں سفیدی مائل فطری پتھر بھی ہیں، جو مسجد کے اندرونی حصے میں نصب کیے گئے ہیں۔

جبوتی کے صدر اسماعیل عمر گلیہ نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوغان سے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک میں سطلنت عثمانیہ کے طرز کی مسجد چاہتے ہیں۔نائجر سے تعلق رکھنے والے ماہر بشریات اور برلن کے مرکز برائے اورینٹل اسٹیڈیز سے وابستہ عبداللہ سنائی کے مطابق، ترکی چاہتا ہے کہ وہ ایک علیحدہ اسلامی طاقت کے طور پر روشناس ہو، بالکل ویسے جیسے کئی دہائیوں سے سعودی عرب کو سمجھا جاتا ہے۔

ترکی افریقہ کے مختلف ممالک میں لاکھوں ڈالر خرچ کر رہا ہے، تاکہ اس کے اثرورسوخ میں اضافہ ہو۔ گزشتہ چار دہائیوں میں ترک ادارہ دیانت دنیا بھر بشمول جبوتی، گھانا، برکینا فاسو، مالی اور چاڈ میں مختلف مقامات پر سو سے زائد اسکولوں اور تعلیمی مراکز کے لیے سرمایہ مہیا کر چکا ہے۔

ترکی ہی نے صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں قرن افریقہ کی سب سے بڑی مسجد کی تزین نو میں معاونت کی۔ اس مسجد میں دس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ سنائی کے مطابق اس طرح مختلف ممالک لوگوں میں اپنا تشخص بناتے ہیں تاکہ وہ ان پر اعتماد کرنے لگیں۔

سعودی عرب بھی افریقہ کے مختلف ممالک میں مساجد کی تعمیر کے اعتبار سے پیش پیش ہے۔ افریقہ کی مشہور مسجد برائے اسلامی یگانگت  1987 میں سعودی سرمایے سے تعمیر کی گئی تھی۔ اسے سعودی عرب کی سلطان بن عبدالعزیز السعود فاؤنڈیشن نے تعمیر کیا تھا۔ سعودی عرب گزشتہ دس سے بیس برسوں میں نائجر، نائجیریا اور مالی میں مسلسل سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ سنائی کے مطابق اس طرح اسلام کی ایک مخصوص تشریح کی ترویج کی جاتی ہے ۔سنیگال کے درالحکومت ڈاکار میں ٹمبکٹو انسٹیٹیوٹ کے سربراہ باکارے سامبے کے مطابق، ان مساجد سے ہر طرح کے نظریات کا پرچار دیکھا جا سکتا ہے کیوں کہ مذہب کے ذریعے اثرورسوخ اور طاقت کا حصول ممکن ہے۔

 ترکی اور سعودی عرب کی طرح قطر اور ایران بھی مذہب کو افریقی ممالک میں اثرورسوخ میں اضافے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سامبے کے مطابق،ایران نے سینیگال، آئیوری کوسٹ اور گنی سمیت کئی علاقوں میں مساجد بنائی ہیں، مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کا مقابلہ یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔سامبے نے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب شیعہ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے نائجیریا میں بہت سی مساجد قائم کر چکا ہے، جب کہ اس ملک میں شیعہ افراد اقلیت میں ہے اور عموماﹰ سماجی دباؤ کی شکایت کرتے ہیں۔

برلن میں مقیم ماہر بشریات عبداللہ سنائی سرمایے کے ذریعے مساجد کی تعمیر پر تنقید کرتے ہیں، اب تک نائجر میں حال یہ تھا کہ جس کے پاس پیسے ہوں وہ افریقہ میں مسجد بنا لے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس ملک میں 21 ملین سے زائد افراد مقیم ہیں، جن میں ننانوے فیصد مسلمان ہیں۔ 1990 سے سلفی طبقہ کی قوت میں اضافے کے بعد مساجد کی تعمیر میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔