Sunday, May 19, 2024
Homesliderشادی اور نکاح کا فرق ایک نومسلم بھائی کے نکاح کے موقع...

شادی اور نکاح کا فرق ایک نومسلم بھائی کے نکاح کے موقع پر دیا اردو خطبہ

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد: دوستو آج  5 اگست 2020 جب سارا ہندوستا ن  بلیک ڈے منارہا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایک خوشی کا موقع یہ عطا فرمایا کہ ہم سب ہمارے ایک نومسلم بھائی  نلّا دانش کے نکاح کی تقریب میں شریک ہوئے ہیں۔ یقینا دلہا، دلہن اور ان کے رشتہ دار قابلِ مبارکباد ہیں، لیکن آپ سب بھی قابلِ مبارکباد ہیں کہ آپ کسی عام نکاح کی محفل میں شریک نہیں ہوئے ہیں بلکہ ایک مجاہد کے نکاح میں شرکت کررہے ہیں۔ ایک ایسا مجاہدجس کو بنک کی منیجری کی نوکری چھوٹ جانے کا بھی خطرہ تھا،اپنے خاندان والوں کے ہاتھوں قتل بھی ہوجانے کا خطرہ تھا، ان خطرات سے بے خوف ہوکر انہوں نے اسلام قبول کیا، قانونی طور پر اعلان بھی کیا اور کاغذی کاروائی بھی مکمل کی۔ دانش نے ایک سال پہلے اسلام قبول کرکے لاالہ الااللہ کی گواہی تو دی، لیکن آج محمدالرسول اللہ ﷺ کہنے کا حق بھی ادا کیا، یعنی اپنا نکاح مکمل نبی ﷺ کے طریقے پر کرکے تمام پیدائشی مسلمانوں کو شرمندہ کردیا۔ یہ کارنامہ خود اسلام قبول کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

                                آپ شائد حیران ہوں گے بلکہ یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ اسلام قبول کرنے سے زیادہ اہم نکاح کیسے ہوگیا۔یا د رکھئے،  کلمہ پڑھنا ایک زبانی فعل ہے، جب عمل کا وقت آتا ہے تو کس نے کتناسچے دل سے کلمہ پڑھا ہے اس کا ثبوت سامنے آجاتا ہے۔بھولیئے مت کہ  اب سے کچھ سو سال پہلے تک ہم سبھی ہندو تھے۔ ریڈی، راؤ، ورما، شرما، شودر اور برہمن یا ویش یا شتری  یہ سب ہمیں تھے۔ ہمارے آباواجدا د نے برہمن واد کے قائم کردہ ”ورنا سسٹم یعنی جاتی سسٹم“  جو  انسانوں کو اونچ نیچ، اعلیٰ ادنیٰ، پاک اور ناپاک میں تقسیم کرتا ہے، ایسے غیرانسانی عقائد کو چھوڑ کر اسلام قبول کرلیاتھا۔ ٹریجڈی یہ ہوئی کہ جن لوگوں کے ہاتھوں ہمارے پُرکھوں نے اسلام قبول کیا، ان عظیم اولیااللہؒ کے دنیا سے گزرجانے کے بعد  ہمارے باپ دادا نے، ان بزرگوں کے دعوتی مشن کو جاری رکھنے کے بجائے، ان کے انتقال کے ساتھ ہی ان  کی  قبروں پر  شرک کے وہ تمام دھندے شروع کردیئے جو اسلام لانے سے پہلے مندروں میں کیاکرتے تھے۔ ہمارے صرف اشلوک بدلے، ہم نے کلمہ، درود اور سلام ضرور پڑھنے شروع کردیئے لیکن ہمارے رسم و رواج، ہمارے عادات و اطوار، ہمارے خوشی اور غم کے مواقع پورے کے پورے وہی رہے۔ تمام رسم و رواج میں سب سے اہم شادی تھی۔ وہ جوں کی توں رہی، بس فرق یہ رہا کہ سات پھیرے لینے کے بجائے قاضی کو بلا لیا، اور کچھ منتر پڑھوانے کی جگہ کچھ قرآن، حدیث اور دعائیں پڑھوالیں۔ ہماری شادیوں کو آئیڈیل وہی اوتار رہے جن کی شادیاں مشرکانہ سماج کا ماڈل ہیں۔ سیتا جی کی شادی میں سونا چاندی، جانور، پیسہ، سامانِ ضروریات کے ساتھ ساتھ جہیز میں ہریجن  غلام مرداور عورتیں دی گئی تھیں۔ یہ جہیز ہم نے باقی رکھا۔ لارڈ شیوا کی بارات ہندوشاستروں کے مطابق اس کائنات کی سب سے بڑی بارات تھی۔ اس میں تمام بھگوان،  رُشی، انسان اور ان کے ساتھ جنگلوں سے شیر، ہاتھی اور گھوڑے سارے شریک ہوئے تھے۔ اب ہم اتنے ہجوم کو تو خیر جمع نہیں کرسکتے تھے، لیکن یہ کرلیا کہ پانچ پانچ سو، ہزار ہزار باراتی شادی کے موقع پر جمع کرلئے، اور ان کی دلہن کے باپ کے خرچے پر ضیافت کروادی۔

شادی اور نکاح میں فرق

                                پورے اسلامی لٹریچر میں کہیں شادی کا لفظ نہیں ملے گا، صرف نکاح کا لفظ ملے گا جس کو نبی ﷺ نے فرمایا کہ ”نکاح میری سنّت ہے“۔ شادی میں ایک دھوم دھڑاکا، ایک جشن یا ایک Celebration پوشیدہ ہے۔ یہ کئی چھوٹی اور بڑی رسموں کا مجموعہ ہوتی ہے۔شادی کا ہندی لفظ ”وِواہ“ ہے۔  ان ہنگاموں کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے کچھ خطرناک عقائد چھپے ہوئے ہیں، جیسے:

شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے

اٹوٹ بندھن، جنم جنم کا ساتھ

جس گھر میں ڈولی جائے وہاں سے ارتھی اٹھے۔ (یعنی جس گھر میں بیاہ کربیٹی کو  ڈولی میں بھیج دیاجائے، اس گھر کو چھوڑ کر وہ کبھی واپس نہ آئے، مرنے پر وہیں سے اس کی ارتھی یعنی جنازہ اٹھے)

                                ظاہر ہے اگر یہ عقیدہ ہوگا تو فطرتاً آدمی یہی چاہے گا کہ جتنی شاندار طریقے سے خوشیاں منائی جاسکتی ہیں، منالو۔ حرام حلال کی پروا کرنے ساری زندگی پڑی ہے، قرضے لو، دھوکہ دو  یا بھیک مانگو لیکن شادی دھوم دھام سے ہونی چاہئے، کیونکہ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے۔  دوسری مجبوری یہ بھی تھی کہ منوسمرتی کے مطابق مشرک سماج میں ہزاروں بلکہ لاکھوں ذاتیں ہوتی ہیں، جن کو جاتیاں بھی کہا جاتا ہے، یہ تمام برہمن کے تحت ہوتی ہیں، برہمن کے بعد ویش، شتری پھر شودر ہوتے ہیں، جن کو آج دلت، آدی واسی، او بی سی، بی سی، شیڈول کاسٹ وغیرہ وغیرہ میں بانٹ دیا گیا ہے۔ پھر برہمن میں بھی اور دوسری تمام ذاتوں میں بھی سینکڑوں چھوٹی بڑی ذاتیں ہوتی ہیں۔ کوئی لڑکی اپنی جاتی کے باہر بیاہی نہیں جاسکتی۔ اخبارات کے Matrimonials کے صفحات پر دیکھئے، ذاتوں پر کتنا زور دیا جاتا ہے۔  برہمن کسی بھی جاتی میں شادی کرسکتا ہے، یا کسی بھی جاتی کی عورت کو دیوداسی کے طور پر استعمال کرسکتا ہے، لیکن کوئی نچلی ذات کی لڑکی یا لڑکا اپنے سے اونچی ذات میں شادی نہیں کرسکتا۔ خود  ان کی اپنی مخصوص جاتی میں بھی چونکہ بے شمار جاتیاں ہوتی ہیں، کوئی اپنی مخصوص جاتی کو چھوڑ کر دوسری اپنی ہی ہم وزن جاتی میں بھی شادی نہیں کرسکتا۔ اگر کر لے تو سماج قبول نہیں کرتا،  کیونکہ اس سے نحوست آتی ہے۔ اس نحوست کو دور کرنے کے پرائشچت یا کفّارے کے طور پر لڑکی کو کسی جانور یا درخت سے شادی کرنی پڑتی ہے۔ مشہور فلم اداکار امیتابھ بچن کے بیٹے  ابھیشیک کی شادی میں ساری دنیا نے یہ تماشہ دیکھا کہ ان کی بہو ایشوریا رائے جو الگ ذات کی تھیں، انہیں امیتابھ کے بیٹے سے شادی کرنے کے لئے پہلے ایک درخت سے شادی کرنی پڑی۔ کہیں ایسی شادیاں کتّوں سے، کہیں بلّیوں یا ہاتھیوں سے کی جاتی ہیں۔ مدّت کا تعیّن ان کی کُنڈلی کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اس لئے آج کل کی جو تعلیم یافتہ نسل ہے، جو ان خرافات کو نہیں مانتی، اپنی شادی کے لئے اشتہار میں یہ واضح طور پر لکھتی ہیں کہ “Religeon no bar, Caste no bar” یعنی مذہب یا جاتی کی کوئی قید نہیں ہے۔ نئی نسل منوسمرتی کے ان اصولوں کو توڑ کر بہت تیزی سے باہر نکل رہی ہے۔کیونکہ ہر جاتی میں اچھے لڑکوں کی کمی ہوتی ہے۔ جب  مارکٹ میں سپلائی کم ہو اور ڈیمانڈ زیادہ  ہو تو آپ جانتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ بلیک مارکٹنگ شروع ہوجاتی ہے۔ اچھے لڑکے کسی بھی سماج میں کم ہوتے ہیں اس لئے ان کو حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ رشوت دینی لازمی ہے۔ یہاں سے ”جہیز“ اور ”ھُنڈا“ یعنی جوڑے کی رقم کا سلسلہ  شروع ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ھنڈا اور جہیز دے کر اچھے لڑکوں کو خرید لینا ہر لڑکی کے باپ کی مجبوری ہوجاتی ہے۔ اور ہر لڑکے کی ماں اور باپ  زیادہ سے زیادہ وصول کرنے کی حرص اور لالچ میں پڑجاتے ہیں۔جہیز دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ مشرک سماج میں باپ کی وراثت میں سے بیٹی کا حصہ اس کی شادی کے وقت ہی دے دیا جاتا ہے۔ اس لئے باپ کی کل جمع پونجی کا کنڈلی نکالتے وقت ہی حساب کرلیا جاتا ہے۔ بلکہ پہلے سے ہی معلوم کرلیا جاتا ہے کہ بیٹی کے حصے میں کیا آئے گا۔ اسی کو دیکھ کر ہی کسی کے گھر رشتہ بھیجا جاتا ہے۔ جو نچلی ذاتیں ہوتی ہیں جن کی اکنامک کنڈیشن بہت خراب ہوتی ہے، وہاں جب لڑکے والوں کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ باپ کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں ہے تو وہ لوگ جہیز کی ایک فہرست بناکر بھیج دیتے ہیں۔ غور فرمایئے، کیا آج مسلمان اسی مشرک رسم کو مکمل طور پر نہیں اپنا چکے ہیں؟ جسے یہ لوگ بے غیرتی اور ڈھٹائی سے ”لڑکی والوں نے خوشی سے دیا“ کہہ کر ڈرامہ کررہے ہیں، دراصل وہ انہیں اپنے باپ دادا کے اسی مشرک دھرم سے ملی ہیں۔

یہاں سے  پھر ایک اور رسم جنم لیتی ہے۔ جلد سے جلد سماج میں یہ اعلان کردینا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اس لڑکے کو ہم نے خرید لیا ہے، ورنہ یہ بھی ممکن ہے کہ بات چیت ہوجانے کے بعد کوئی زیادہ جہیز کا آفر دے دے تو لڑکے والوں کی نیّت بدل سکتی ہے۔ اس لئے لڑکی والے دھوم دھام سے منگنی کرڈالتے ہیں۔ لڑکے کو انگوٹھی پہنادیتے ہیں تاکہ جو بھی دیکھے، سمجھ جائے  کہ  یہ بکرا فروخت ہوچکا ہے۔ پھر شادی کے دن کا کھانا، چونکہ ان کے پاس ولیمہ نہیں ہوتا، اس لئے دونوں مل کر شادی کے دن کھانا کھلاتے ہیں۔ اس کو بارات کہا جاتا ہے۔ ایک اہم بات یہ نوٹ کی جائے کہ لڑکے والوں کے مہمانوں کے کھانے کا  پیسہ لڑکی والے دیتے ہیں اور لڑکی والوں کے مہمانوں کے کھانوں کا خرچہ لڑکے والے دیتے ہیں۔ اس لئے لڑکے والے اپنے زیادہ سے زیادہ مہمان لے آتے ہیں اور ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ ہمارے پانچ سو، آٹھ سو یا ہزار آدمی ہوں گے۔ جب کہ لڑکی والے پریشر میں ہوتے ہیں، وہ ڈیمانڈ نہیں کرسکتے، یہ بھی لڑکے والے خود فِکس کرتے ہیں کہ لڑکی والے کتنے مہمانوں کو لائیں۔ کیا مسلمانوں میں آج یہ رسم من و عن اسی طرح نہیں چل رہی ہے؟

مشرک سماج میں شادی کا تصور ایک کنیادان کا تصوّر ہے۔ کنیا یعنی لڑکی، دان یعنی خیرات۔ لڑکی کو جہیز اور ھُنڈے کے ساتھ دان کردیا جاتا ہے۔ جہاں ڈولی جائے وہیں سے ڈولی اٹھے  کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ چونکہ اس کو جہیز اور شادی کے اخراجات کی شکل میں باپ کی وراثت میں سے حصہ دے دیا جاچکا ہے، اب اسے باپ کے مرنے کے بعد واپس آکر پھر سے مطالبہ کرنے  کا  حق نہیں ہے۔ اور جو کچھ جہیز اسے ملتا ہے وہ اس کی نہیں بلکہ اس کے شوہر کی ملکیت یا پراپرٹی  ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ اخبارات میں جہیز کی وجہ سے  خودکشی یا قتل کے واقعات کی تفصیل میں یہ بھی پڑھتے ہیں کہ ”شوہر مزید جہیز کا مطالبہ کررہا تھا“۔

                                عورت کے دماغ میں شادی کو ”اٹوٹ بندھن“ یا ”جنم جنم کا رشتہ“ کے طور پر بٹھانے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب شوہر چاہے ظالم ہو یا شرابی ہو، یا زانی ہو، جوّے باز ہو کہ دھوکے باز ہو، بوڑھا ہو کہ بیمار، عورت کو اسی کے ساتھ رہنا ہے، اسی کے گھر مرنا ہے۔ اگرشوہر مارے تو اسے مار کھانی ہے کیونکہ منوسمرتی کے مطابق”عورت کو اگر شوہر مارتا ہے تو عورت کے پچھلے جنم کے جو پاپ ہوتے ہیں وہ دُھل جاتے ہیں۔ مرد کا ایک ایک تھپّڑ عورت کے ایک ایک پاپ کو دھوڈالتا ہے“۔حتیٰ کہ مرد کے ہاتھوں عورت کی موت بھی ہوجائے تو یہ قابلِ تعذیر جرم نہیں ہے۔ اگر کسی دوسری جاتی کے مرد کے ہاتھوں اس کی بیوی کا قتل ہوجائے تو اس کی بازپر س کی جاسکتی ہے لیکن اگر برہمن کے ہاتھوں بیوی مرجائے تو برہمن کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ بلکہ بیوی کو اگلے جنم میں بہت اچھے انعام کی خوشخبری دی جاتی ہے۔اگر شوہرمرجائے تو بیوی کو بناؤسنگار سب کچھ ترک کردینا فرض ہے۔ وہ کسی سے شادی نہیں کرسکتی، وہ ایک منحوس عورت تصور کی جاتی ہے، کسی خوشی کی تقریب میں اس کے جانے سے وہاں بھی نحوست وارد ہوتی ہے، اس

لئے وہ اپنے گھر کے آنگن میں ایک کمرہ بناکر رہے، لیکن خود اپنے گھر میں داخل نہ ہو۔ کچھ راجستھان کی ذاتیں ایسی ہیں جن میں عورت کو ستی کردیا جاتا تھا یعنی جلا دیا جاتا تھا، تاکہ نہ وہ زندہ رہے اور نہ کسی مرد کی نظر میں آئے، کیونکہ اگر ایسی عورت کی ہمدردی میں کسی مرد نے آگے بڑھ کر اس عورت کو سہارا دے دیا تو اس مرد کو رنڈوا کہتے  ہیں اور اس عورت کو رانڈ۔ مرد چاہے تو عورت کو چھوڑ سکتا ہے لیکن عورت خلع نہیں لے سکتی، کیونکہ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے۔کیا پیدائشی مسلمانوں نے یہ رسمیں چھوڑی ہیں؟ کیا ان کے پاس آج  بھی بیوا سے مطلقہ سے شادی کرنا ایک عیب نہیں سمجھا جاتا؟ کیا اگر شوہر ظلم کرے تو لوگ عورت ہی کو قصور وار سمجھ کر اس پر لعن طعن نہیں کرتے؟

                                 جہیز دینے کا حکم ہندو شاستروں میں موجود ہے۔ کہا گیا ہے کہ تین قسم کی دکھشنائیں Gifts ہوتی ہیں۔ ایک بھگوان کے نام پر، ایک گرو دکھشنا یعنی گرو، استاد یا پنڈت کو، تیسری ورو دکھشنا یعنی دلہا کو، جو دلہن والوں کی طرف سے دی جاتی ہے۔ یہ ایک مذہبی عقیدہ ہے کہ دلہا کو زیادہ سے زیادہ دکھشنا دی جائے۔ کیا ہمارے مولویوں نے یہی کام  نہیں کیا کہ جہیز کو ھدیہ یا تحفہ دے کر سنت سے ثابت کردیا؟

                                اب آیئے، دیکھئے، ان مسلمانوں کی طرف جن کے باپ دادا نے اسلام تو قبول کرلیا، لاالہ الا اللہ تو پڑھ لیا، لیکن کہاں تک انہوں نے محمدالرسول اللہ کو اپنا رسول مانا۔  شادی کی ایک ایک رسم آج تک وہی ہے جو اپنے پچھلے دھرم سے لے کر آئے تھے۔ بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ ان رسموں کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کو اسلامائز کرنے کے لئے ان کے وہی مولوی آگے آئے جو کبھی پنڈت اور پجاری بن کر ساتھ پھیرے لگواتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ جہیز، بارات، فضول خرچیوں اور کئی رسموں کو ”خوشی سے“، ”عُرف“  اور ”مباح“ کہہ کر نہ صرف جائز کردیا بلکہ بہ نفس نفیس ان میں شرکت کر کے خوب پیٹ بھر کر کھاکر نکلتے ہوئے مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں۔

اسلام میں شادی کا دور  دور تک کوئی تصور نہیں۔ صرف اور صرف نکاح کا ہے۔ اور جو اس نکاح کے طریقے کو نہ اپنائے، بنی ﷺ نے خود فیصلہ فرمادیا کہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، وہ مجھ سے نہیں۔ وہ مشرکوں کا ہو سکتا ہے، وہ نصرانیوں یا یہودیوں سے ہوسکتا ہے، لیکن مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ ہر اس عقیدے کو اسلام نے کچل دیا جس کی بنیاد پر عورت کے حقو ق کی پامالی Violation of Women’s Rights ہوسکتی ہے۔ جیسے جہیز، بارات، کھانا، جوڑے یا ہنڈے کی رقم۔ یہ سوشیل بلیک میل ہے۔ خوشی سے دینے والے اس جرم کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔

                                اسلام نے اس بات کو مکمل رد کردیا کہ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے۔ اگر عورت کو جہاں سرکشی پر طلاق دی جاسکتی ہے وہیں عورت کو بھی حق ہے کہ اگر مرد اس کے لائق نہ ہو تو وہ فوری خلع لے کر اپنی زندگی نئے سِرے سے کسی اور کے ساتھ شادی کرکے شروع کرسکتی ہے۔ نکاح کا تصور یہ ہے کہ لڑکی کے باپ یا بھائی کا  ایک روپیہ  بھی خرچ  نہ ہو، نہ جہیز پر اور  نہ ضیافت پر۔ الٹا یہ کہ مرد کو مہر ادا کرنا ہے۔ مہر، عورت کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ جو حق عورت کو دیا گیا آج مسلمان معاشرے نے وہ حق عورت سے چھین کر لڑکے کے باپ اور رشتہ داروں کو دے دیا جو شادی کی بات چیت کے موقع پر خود فِکس کرتے ہیں، صرف مہر ہی نہیں بلکہ مہمانوں کی تعداد، جہیز اور ھُنڈے کی مقداربھی وہ فِکس کرتے ہیں، اور لڑکی والے مشرک سماج کی طرح خاموشی سے مان لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے مہر ادا نہیں کیا اور مہر ادا کرنے کی نیّت بھی نہیں رکھی، وہ زانی کی موت مرا۔ مہر نقد ادا کیا جائے۔

                                جہیز یا کھانے پر اگر کوئی باپ خرچ کربھی رہا ہے تو یہ جائز نہیں، لیکن وہ اگر اپنی ضد پر کررہا ہے تو اس کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں، اس کے  مرنے کے بعد لڑکی کو باپ کی وراثت سے پورا پورا حق ملے گا۔ اگر بھائیوں نے دینے سے انکار کیا تو وہ ایک بہت بڑے حرام کے مرتکب ہوں گے۔ اسی طرح عورت کو کسی بھی کلمہ گو سے شادی کی اجازت ہے۔ اسلام میں کوئی جاتی نہیں۔ نہ کوئی اونچا ہے اور نہ نیچا۔ ہاں کفو کے احکام ہیں،مگر ان کا تعیّن ذات کی بنیاد پر نہیں۔آج یوپی اور بہار وغیرہ میں برادریوں کا اتنا زور ہے کہ ہندوازم کی جاتیاں شرمندہ ہوجائیں۔  یہ

ایک اہم  موضوع ہے جس پر انشااللہ آئندہ کبھی تفصیل سے روشنی ڈالی جائیگی۔

                                دوستو:  نکاح ایک ایسا طریقہ ہے جس کو اگر امت مسلمہ پیش کرے تو پورے ہندوستان کی غربت و افلاس نہ صرف دور ہوسکتے ہیں بلکہ کروڑوں غیرمسلموں کے پاس اسلام کی ایک شاندار دعوت پہنچ سکتی ہے۔ آج مسلمانوں کی غربت و افلاس کا اہم سبب یہی ہے کہ انہوں نے محمدالرسول اللہ کا کلمہ تو پڑھا لیکن اپنے پرکھوں کا طریقہ نہ چھوڑا، اس لئے آج ہندوستان میں ان کو شودروں کے بعد کا درجہ دیا جارہا ہے۔ اگر وہ یہ جہیز، یہ منگنی، یہ نقد رقم یعنی ھُنڈا اور یہ کئی سو مہمانوں کا کھانا چھوڑ دیں تو ان کی بیٹیاں  فاطمہؓ، ام کلثومؓ  اور امہات المومنینؓ کی طرح رخصت ہوں گی۔ نہ ماں باپ کو گھر بیچنا پڑے گا، نہ لڑکیوں کے بھائی کنگال ہوں گے، اور نہ انہیں اپنی شادی میں کسی اور گھر پر وہی ڈاکہ ڈالنا پڑے گا جو ڈاکہ ان کے بہنوائی نے ان کے گھر پر مارا ہے۔

                                دوستو: آخری بات یہ ہے کہ یہ لعنت سالہا سال سے نہیں صدیوں سے چل رہی ہے۔ مہارانی جودھا بائی کی لائی ہوئی رسمیں آج ہر امیر نے اپنا لی ہیں، ان کی وجہ سے یہ لعنت میڈیم کلاس اور Poor کلاس میں چلی آئی ہے۔ اس پر خطبے بہت ہوچکے، تقریریں اور تحریریں بہت ہوچکیں، تبصرے بہت ہوچکے۔  ان کو روکنے کا ایک طریقہ جو اسلام نے دیا ہے وہ کبھی اپلائی نہیں کیا گیا۔ اور وہ ”جب تم میں سے کوئی برائی کو دیکھے تو ہاتھ سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو زبان  سے روکے، اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو دل سے نفرت کرے، یہ ایمان کا آخری درجہ ہے، اس کے بعد پھر ایمان باقی ہی نہیں رہتا“ اس کے مطابق اگر کسی ایسی شادی کی دعوت آئے جس میں وہی مشرکوں کے رسم و رواج یعنی منگنی، بارات، جہیز وغیرہ ہیں تو اس دعوت نامے کو اس کے سامنے ہی پھاڑ دیں، زبان سے کہیں کہ میں کسی ایسی شادی میں نہیں آسکتا جو میرے نبی ﷺ کے نکاح کے طریقے کے خلاف ہے“۔ یہ بھی کہیں کہ ”آج تک یہ گناہ مجھ سے سرزد ہوا ہے، لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے، میں استغفار کرتا ہوں“۔ اگر وہ مروّت یا ”لوگ کیا کہیں گے“ کے خوف سے دعوت نامہ قبول کرتا ہے، زبان سے کچھ نہیں کہتا، جاکر کھانا کھاکر اور مبارکباد بھی پیش کرکے آتا ہے تو یہ جان بوجھ کر اپنے نبی ﷺ کے حکم کی نافرمانی کرکے اپنے پُرکھوں کے دھرم کو زندہ کرنے والی حرکت ہے، اس کے بعد پھر ایمان باقی ہی نہیں رہتا۔

                نوٹ: نومسلم بھائی کی تفصیلات کچھ مصلحتوں کی وجہ سے پیش نہیں کی گئیں۔ یہ نکاح 5  اگست 2020  کو امان فنکشن ہال، مہدی پٹنم حیدرآباد پر بوقت ظہرمحترمہ خالدہ پروین صاحبہ کی زیرِ سرپرستی منعقد ہوا، جو جماعتِ اسلامی ہند کی رکن بھی ہیں، ایک معروف سماجی جہدکارہ اور ایک کونسلر بھی ہیں جن کے پاس بے شمار لوگ اپنے مسائل لے کر آتے ہیں۔ نکاح کے فوری بعد ولیمہ کیا گیا۔ سوشیوریفارمس سوسائٹی کی جانب سے ایسے نکاح جو مکمل سنت کے مطابق منعقد کئے جائیں، یعنی جن میں نہ کوئی جہیز ہو، نہ لڑکی والوں سے کھانا لیا جائے، ایسے ولیمہ کی دعوتوں کے لئے شادی خانہ فری دیا جاتا ہے۔ یہ نکاح بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ الحمدلللہ

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی

حیدرآباد

9642571721

Disclaimer: The views, thoughts & opinions expressed within this article are the personal opinions of the author. and the same does not reflect the views of Y THIS NEWS and Y THIS NEWS does not assume any responsibility or liability for the same.