Saturday, May 18, 2024
Homeslider!شام میں امریکہ کی اضافی فوج، ترکی اور روس کو انتباہ

!شام میں امریکہ کی اضافی فوج، ترکی اور روس کو انتباہ

- Advertisement -
- Advertisement -

انقرا: روسی افواج کے ساتھ تصادم کے بعد شام میں اپنی فوج کی موجود گی کو بڑھانے کے امریکہ کے فیصلے نے ترکی روس اور ایران کو جاری کردہ اپنے  پیغام سے تشویش پیدا کردی ہے ، کیونکہ واشنگٹن خطے میں اپنے عارضی کردار کو تقویت دینے  کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم ماہرین نے کہا ہے  کہ طاقت کے مظاہروں سے مشرقی حصے میں جمود کو تبدیل کرنے کا امکان نہیں ہے ، جس پر پہلے ہی امریکی اور شام کی کرد یائی جی فورسز کا غلبہ ہے۔

اس علاقے میں پہلے ہی موجود 500 فوجیوں کے علاوہ ، امریکہ نے چھ بکتر بند بریڈلی فائٹنگ گاڑیاں اور مزید 100 فوجیوں کو شام خطے میں تعینات کیا ہے جس کی ترجمانی روس کو ان علاقوں میں مداخلت سے روکنے کی کوشش کے طور پر کی گئی ہے جہاں امریکی اور کرد فوج مشترکہ طور پر شامل ہیں۔ گذشتہ ماہ ایک واقعے کے دوران سات امریکی فوجی زخمی ہوئے تھے جس میں روسی بکتر بند گاڑی امریکی فوج کی گشت والی گاڑی سے ٹکرا گئی تھی۔

روس اور ترکی نے 15 اور 16 ستمبر کو انقرہ میں شام کی صورتحال کے بارے میں بات چیت کا ایک نیا دور شروع  کیا تاہم وہ باغیوں کے زیر قبضہ صوبے ادلیب میں مؤخر الذکر کی فوجی موجودگی کو کم کرنے کے بارے میں کوئی اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکام رہے ، جہاں 20ہزار  سے زیادہ ترک فوج تعینات ہے۔

روس توقع کرتا ہے کہ دونوں فوجیوں کے مابین پچھلے معاہدے کی رو سے ترک فوج  M4 ہائی وے کے جنوبی  علاقوں سے دستبردار ہوجائے گی لیکن انقرہ میں حکام اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ وائی پی جی افواج کے منبیج اور تل رفاط شہروں کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔

ایک آزاد اسٹریٹجک رسک کنسلٹنٹ اور روسی بین الاقوامی امور کونسل میں کے ماہر الیکسی خلیبنکوف نے کہا کہ ترکی کو ممکنہ طور پر ادلیب میں تعین کے بارے میں روس کے ساتھ معاہدے تکمیل کے بدلے میں کچھ حاصل کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا ماسکو چاہتا ہے کہ انقرہ M4 شاہراہ کے جنوب سے اپنی فوجیں نکالے کیونکہ مارچ میں دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشرق وسطی کے تجزیہ نگار سموئیل رمانی کے مطابق اضافی امریکی افواج کی تعیناتی سے ترکی اور روس کے مابین ہونے والی بات چیت پر اثر پڑے گا یا ان کے تعلقات کی حرکیات میں ردوبدل کا امکان نہیں ہے۔

انہوں نے کہا یہ بنیادی طور پر روس کو ایک علامتی انتباہ ہے کہ وہ شام میں امریکی افواج کو ہراساں نہ کرے اور اسے نقصان نہ پہنچا سکےلیکن روسی جارحیت کو روکنے کے لئے ان کی صلاحیت بھی محدود ہے ، کیونکہ ماسکو کو بہت پر اعتماد ہے کہ امریکہ شام کے تنازعے میں خود کو زیادہ گہرائی میں گھسیٹنے کے بجائے شام سے دستبرداری کا انتخاب کرے گا جب تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر رہے۔