Saturday, May 18, 2024
Homeٹرینڈنگشاہین باغ احتجاج نے سنگھیوں کی نیند حرام کردی

شاہین باغ احتجاج نے سنگھیوں کی نیند حرام کردی

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد – اس وقت ہمارے ملک کے جو حالات ہے وہ ساری دنیا پر عیاں ہیں ۔ بی جے پی حکومت ملک کے اہم موضوعات جس پر خاص کر معاشی ترقی ، روزگار ، صحت اور تعلیم کے مسائل حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے شہریت ترمیمی قانون کو متعارف کرتے ہوئے اپنوں سے زیادہ غیروں پرکرم کے مصداق پڑوسی ممالک کے پناہ گزینوں اور مہاجرین کو شہریت دینے پر ساری توانائی صرف کررہی ہے ۔

شہریت ترمیمی قانون کے منظور ہونے کے ساتھ ہی ملک میں ایک بے چینی کی کیفیت ہے جس نے ملک کی پرامن فضا کو اتھل پتھل کردیا ہے ۔ دہلی کے شاہین باغ اور اس طرح کئی مقامات پر ہونے والے احتجاج نے حکومت اور عوام کے درمیان ایک بڑی چیلنج پیدا کردیا ہے ۔ ایک جانب جہاں عوام کالے قانون شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کررہے ہیں تو دوسری جانب آر ایس ایس کے حامی شرپسندوں نے پرامن احتجاج اور احجتاج میں شرکت کرنے والے افراد کو نشانہ بنانے کی سازشوں میں مصروف ہیں ۔

ہر گذرتے دن کے ساتھ بی جے پی لیڈروں اور متعصب پولیس عہدیداروں کے ایسے شرمناک بیانات سامنے آرہے ہیںجس نے ہندوستان کی دنیا بھر میں سیکولر ساکھ کو بدنام کردیا ہے ۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کا اشتعال انگیز نعرہ سماج میں نفرت پھیلانے اور ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں ڈکھیلنے والا ہے ۔ یہ پرامن ماحول کےلئے کس طرح بہتر ہوگا کہ ایک مرکزی وزیر اس طرح کا بیان دے اور اس کے بعد اس کے چاہنے والے شرانگیزی نہیں کریں گے اس کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے ۔

ایک جانب جمہوریت اور سیکولر ہندوستان کو کسی بھی نقصان سے محفوظ رکھنے کیلئے سڑکوںپر پرامن احتجاج کرنے والے عوام ہیں تو دوسری جانب ہندوتوا اور تعصب سے بھرے سنھگی اور سنکی افراد ہیں اور اب ہندوستان میں سنگھی اور غیرسنگھی افراد کے درمیان کھلی لڑائی ہے ۔ اب یہ بھی دیکھا جارہا ہے آئے دن سنگھیوں کی شرانگیزی بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ ہندوتوا کے شرپسندوں کے حوصلے اس لئے کافی بڑھے ہوئے ہیں کیونکہ اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھے ان کے آقا وں کی زبان سے وہ بیانات اور نعرے نکل رہے ہیں جو انہیں درندگی کا مزا لوٹنے کیلئے کافی ہیں ۔

شاہین باغ کا احتجاج ان کی نظروں میں کھٹک رہا ہے اور جہاں خواتین پرامن طریقے سے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے فاشسٹ طاقتوں کے خلاف پرامن احتجاج کے ذریعہ اپنی آواز بلند کررہی ہیں وہیں اس پرامن احتجاج کیلئے تعینات معتصب پولیس عہدیداروں کا رویہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ ارباب مجاز کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ اور فقرے کسنے کے علاوہ انہیں گھروں سے نکال کر عصمت ریزی اور قتل کرنے کی تک دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

حکومت کے خلاف پرامن احتجاج کرنا ہر ہندوستانی کا جمہوری حق ہے لیکن سنگھیوں کو یہ احتجاج ایک نظر نہیں بھارہا ہے ۔ دوسری جانب سماج میں ایک ایسا بھی طبقہ ہے جس کا تعلق تو بھلے ہی اکثریتی فرقہ سے ہو لیکن یہ بھی ان ہندوتوا اور فاشسٹ نظریات کے حامل افراد کی سرگرمیوں سے نالاں ہے لیکن وہ کھل کر ان کی مخالفت میں ہنوز سڑکوں پر نہیں آیا ہے حالانکہ سنگھیوں کی جانب سے حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات جن میں عیسائی ، سکھ اور دلت بھی شامل ہیں ان کے خلاف بھی شرانگیزی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

پانی جب سر سے اونچا ہونے لگا تو طلبہ ، اساتذہ اور اسکالرزکے گروپس بھی جمہوریت کی اس جنگ میں کود پڑے ہیں لیکن انہیں بھی سنگھیوں نے اپنے تشدد کا نشانہ بنایا ہے ۔ یہ واقعہ بھی سب کے ذہنوں میں موجود ہے کہ شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور این آرسی کے خلاف ایک مہینے سے زائد عرصہ سے مخالف احتجاجی مظاہرے چل رہے ہیں۔ مظاہرین میں بچوں اور خواتین کی تعداد کافی بڑی ہے۔ مظاہرین مرکزی حکومت سے نئے شہریت قانون واپس لینے کی مانگ کررہے ہیں لیکن سنگھی افراد کو یہ احتجاج کافی پریشان کررکھا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ایک شخص مظاہرین سے بات چیت کے لئے پہنچا لیکن اس دوران مذکورہ فرد نے مظاہرین کو اپنی لائسنس یافتہ پستول دیکھاکر دھمکی دی۔

جس کا ویڈیو نیوز ایجنسی اے این ائی نے جاری کیاجو 52سیکنڈ پر مشتمل ہے۔ وائرل ویڈیو میں صاف سنائی دے رہا ہے کہ مظاہرین اس فرد کو پکڑنے کے آوازیں لگارہے تھے ۔یہ تو صرف ایک مثال ہے لیکن احتجاج کو ختم کرنے کےلئے شرپسندعناصر کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں کیونکہ وہ کسی بھی طرح ہندوستانی عوام کوان کے جمہوری حقوق سے محروم کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو ایک ہندو علاقے میں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔