Sunday, May 19, 2024
Homeٹرینڈنگشہریت ترمیمی قانون کی ہمیں مخالفت کیوں کرنی چاہئے

شہریت ترمیمی قانون کی ہمیں مخالفت کیوں کرنی چاہئے

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ اس وقت ہندوستان بھر میں بی جے پی حکومت کے خلاف شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سخت احتجاج ہورہے ہیں کیونکہ ایک جانب حکومت کی جانب سے متعارف کردہ کالا قانون غیر دستوری ہے تو دوسری جانب یہ قانون ہندوستان کی سالمیت کو مذہب کے نام پر توڑنے والا ہے ۔ہندوستانی عوام کو اس قانون کے خلاف اس لئے بھی احتجاج کرنا چاہئے کیونکہ اس قانون کی وجہ سے ہندوستان کی یکجہتی ،بھائی چارگی اور سیکولر اقدار کو شدید نقصان ہونے والا ہے جس کا راست اثر ہندوستان کی ترقی پر ہوگی اور جب ہندوستان ترقی کی راہ پر اپنی رفتار ختم کرلے گا تو اس کا اثر ہر شہر اور دیہات میں موجود فرد کے چولہے تک پڑے گا ۔

ان تمام حالات میں سب سے پہلے ہندوستان کے محب وطن ہر شہری کو یہ جاننا ضروری ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کیا  ہے او ر اسکے بعد این آر پی  اور این آر سی کے ذریعہ کس طرح اسے ملک بھر میں نافذ کیا جائے ؟

شہریت ترمیمی قانون ہے کیا؟

وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے 9 دسمبر کو پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل پیش کیا۔ جسے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔بل کے ذریعے ہندوستان میں رائج 1955 کے شہریت قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔ جس کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کے بعد ہندوستان آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی برادری کے افراد کو شہریت دینا ہے اور اب یہ قانون کی حثیت حاصل کرلیا ہے ۔

جو لوگ 31 دسمبر 2014 یا اس سے قبل مذکورہ بالا ممالک  سے ہندوستان آئے ہیں ان کو بھی ہندوستان کی شہریت دی جائے گی۔ نئے قانون  میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایوان میں یہ بل پیش کرتے ہوئے اس میں ترمیم کو ہندوستانی آئین کے مطابق اور معقول درجہ بندی کہا تھا۔ وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 11 شہریت دینے کے معاملے سے متعلق ہے۔ جس میں وفاقی حکومت کا یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ معقول درجہ بندی کرتے ہوئے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کے قانون میں ترمیم کر سکتی ہے۔

البتہ ناقدین کہتے ہیں کہ حکمراں جماعت کے نزدیک معقول درجہ بندی کا پیمانہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 سے متصادم ہے۔ ان کے نزدیک  ہندوستان کا آئین سیکولرازم اور مساوات پر زور دیتا ہے لیکن موجودہ حکومت اسے نظرانداز کر رہی ہے۔

ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 14 اور 15 کیا کہتا ہے؟

ہندوستان کے  آئین یا دستور کے آرٹیکل 14 کے مطابق ریاست ہر شخص سے برابری کی بنیاد پر سلوک کرے گی۔ اس آرٹیکل میں ہندوستان کے شہری کے بجائے ہندوستان  میں موجود ہرشخص کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ہندوستان  آئین کے آرٹیکل 15 میں کہا گیا ہے کہ ریاست مذہب، رنگ، نسل، ذات، جنس کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتے گی۔ قانونی ماہرین کے مطابق آرٹیکل 15 میں لفظ شہری استعمال کیا گیا ہے۔ یوں شہریت ترمیمی بل براہ راست آئین کی نفی نہیں کرتا البتہ آرٹیکل 15 میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔

ہندوستانی  شہریت حاصل کرنے کا مروجہ طریقہ کار

ہندوستانی شہریت سے متعلق 1955 کے ایکٹ کے تحت کوئی بھی شخص جو ہندوستان میں پیدا ہو یا 1950 سے لے کر 10 دسمبر 1992 تک ہندوستان سے باہر پیدا ہونے والا شخص جس کے والد اس کی پیدائش کے وقت ہندوستانی شہری ہوں، وہ ہندوستانی شہریت کا حق دار ہے۔

اس کے علاوہ ہندوستانی میں 12 سال سے قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد بھی ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ کوئی بھی فرد جس کی کسی ہندوستانی شہری سے شادی کو سات سال کا عرصہ گزر چکا ہو وہ بھی ہندوستانی کی شہریت حاصل کر سکتا ہے۔حکومت کا یہ کہنا ہے کہ ان شرائط پر پورا اترنے والے مسلمان اس طریقۂ کار کے تحت ہندوستانی شہریت کی درخواست دے سکتے ہیں۔

غیرقانونی تارکین وطن سے متعلق قوانین کیا تھے؟

ہندوستانی میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد یا ایسے افراد جو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے ہندوستان میں داخل ہوئے ہوں یا جن کے ویزا کی میعاد ختم ہو چکی ہو، انہیں یا تو ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے یا ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے۔

لیکن  2015 میں ہندوستانی حکومت نے 31 دسمبر 2014 یا اس سے پہلے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کی بنیاد پر نقل مکانی کرکے ہندوستان آنے والے افراد کو ڈی پورٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان میں ہندو، سکھ، عیسائی برادری، جین، بودھ اور پارسی تارکین شامل تھے۔شہریت بل میں ترمیم کے بعد اب مذکورہ مذہب کے ماننے والے ان تین ممالک کے تارکینِ وطن کو ہندوستان کی شہریت دی جائے گی جس کا اطلاق ہندوستان میں ان کے داخلے کے دن سے ہو گا۔

شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کیوں؟

بی جے پی حکومت کی جانب سے متعارف کردہ نیا قانون شہریت ترمیمی قانون جو کہ ہندوستانی دستور کے آرٹیکل 8،14،15اور 21 کے خلاف ورزی کرتا ہے اس لئے اسے واپس لیا جانا چاہپے اور ساتھ ہی ملک بھر میں جو این آر پی اور این آر سی کو نافذ کرنے کی بات کی جارہی ہے اس کی مخالفت بھی ضروری ہے۔

این آر پی کیا ہے؟

این آر پی سے مراد نیشنل پاپولیشن رجسٹر ہے ۔ این آر پی دراصل ہندوستان میں موجود ہر فرد کی تفصیلات کا ڈیٹا بیس ہوتا ہے ۔ این آر پی کےمواد کے لئے گھر گھر جاکر تفصیلات جمع کی جاتی ہیں ۔ملک کی جملہ آبادی کی تفصیلات جمع کرنے کا یہ طریقہ ہر 10 سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے جیسا کہ 2011 میں آخری مرتبہ انجام دیا گیا تھا اور اب 2021 میں این آر پی ہونا ہے ۔

این آر پی میں دراصل ہر گھر کی تفصیلات جمع کی جاتی ہیں جیسا کہ گھر میں کتنے افراد ہیں ؟ ان کی عمریں کیا ہیں؟بچے کتنے ہیں ؟شادی شدہ اور غیر شادی افراد کتنے ہیں؟ملازمت  کیا ہے؟مذہب کونسا ہے؟مقام پیدائش کیا ہے؟مادری زبان کیا ہے ؟کوئی معذور ہے کیا؟کیا افراد خاندان پسماندہ طبقات ایس سی یا ایس ٹی سے تعلق رکھتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ

این آر پی کےلئے دستاویزات فراہم کرنے ہوتے ہیں یا پھرگواہوں کے طور پر کسی کو پیش کرنا ہوتاہے ۔بظاہر اس میں کوئی دقعت نہیں ہے لیکن چونکہ حکومت این آر پی کے بعد این آر سی نافذ کرنا چاہتی ہے جس کے لئے وہ این آر پی کو پہلا قدم یا اپنے مقاصد کےلئے پہلا ہتھیار بنانا چاہتی ہے اس کےلئے این آر پی کی مخالفت ضروری ہے۔

این آر سی کیا ہے؟

این آر سی سے مراد نیشنل رجسٹر آف انڈین سٹیزنس جسے ہم عام اردو میں قومی رجسٹر برائے ہندوستانی شہری کہے سکتے ہیں اور اس فہرست میں شامل افراد کو ہی ہندوستانی شہری مانا جائے گا اور اس رجسٹر میں اپنا نام شامل کروانے کے لئے دستاویزات لازمی ہیں اور اگر کوئی اس فہرست میں جگہ بنانے میں ناکام ہوتا ہے تو پھر اس کے لئے سنگین مسائل کاایک سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

جس شہری کا بھی نام اس فہرست میں نہیں آئے گا وہ کوئی بنیادی حقوق سے محروم ہوجائے گا جیسا کہ وہ حق رائے دہی (ووٹ دینے کا حق) سے محروم ہونے کےعلاوہ حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی دیگر مراعات سے بھی محروم ہوجائے گا جس کے بعد اسے حراستی کیمپ یا ڈینٹشن سنٹر میں بے یارومدگار چھوڑدیا جائے گا۔

سرکاری اعداد شمار کے مطابق اس وقت ہندوستان میں 30 ملین افرادکے پاس کوئی اراضی نہیں ہے اور جب زمین ہی نہیں ہے تو پھر ان کے پاس زمینات کے کاغذات کہاں سے ہوں گے۔17 ملین ایسے افراد ہیں جن کے پاس کوئی مکان نہیں ہے اور یہ افراد فلائی اوور بریجس،فٹ پاتھوں اور دیگر مقامات پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔150 ملین افراد خانہ بدوش ہیں جن میں بنجارے،گاریا ہوہاراور دیگر طبقے کےلوگ ہیں ۔80 ملین قبائلی افراد ہیں اور ان تمام افراد کے پاس کسی قسم کا کوئی کاغذ نہیں ہےاور ان میں اکثریت ان پڑھ لوگوں کی ہےجونہ صرف شہریت کےلئے کوئی دستاویزات پیش کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ دستاویزات حاصل کرنے کے عمل سے گزر سکتے ہیں۔ان تمام حالات میں ہندوستان کے غریب اور متوسط طبقے کے افراد پر زائد بوجھ ڈالا جارہا ہے۔