Thursday, May 16, 2024
Homeدیگرنقطۂ نظرصحافت : مظاہری ، قیاسی، انتقامی، سازشی، نظریاتی اور ادراکی پہلو

صحافت : مظاہری ، قیاسی، انتقامی، سازشی، نظریاتی اور ادراکی پہلو

- Advertisement -
- Advertisement -

صحافت ایک بامقصد اظہار خیال ہے جو روزمرہ کے واقعات‘ واردات و حادثات سے نمٹتے ہیں‘ ان میں پنہاں حکایات کے پہلو کی عکاسی کرتے ہیں اور انسانی مفادات کو اجاگر کرتے ہیں مگر تیز رفتار تبدیلیوں سے معنون عصر حاضر میں صحافت کی تعریف ہی بدل کر رہ گئی ہے۔ صحافت کی توضیحات‘ تشریحات‘ رجحانات و ترجیحات میں بھی نمایاں تبدیلیاں آچکی ہیں اور صحافیوں کی سوچ و فکر میں بھی نمایاں فرق آچکا ہے۔ کسی بھی علاقہ میں صحافت کا آغاز اگرچہ ایک مشن کے طور پر ہوا تھا مگر آج یہ ایک صنعت میں تبدیل ہوچکی ہے۔ جو صحافتی ادارے ایک مشن کے تحت وجود میں آئے تھے وہ ادارے بھی اپنے مقاصد کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر اپنی ترجیحات اورمقاصد میں بھی تبدیلی لاچکے ہیں۔ اب صحافت کو مشن ؍ پیشہ نہیں بلکہ ملازمت؍تجارت سمجھا جانے لگا ہے۔ ان حالات کا فائدہ اٹھاکر سرمایہ دارانہ اور استبدادی قوتیں صحافت پر غالب آگئیں اور صحافیوں کی سوچ و فکر کو ایک غیر محسوس مگر منظم انداز میں کنٹرول کیا جانے لگا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ صحافی بنائے نہیں جاتے بلکہ خدا داد ہوتے ہیں مگر آج صحافی یونیورسٹیوں میں تیار کئے جانے لگے ہیں۔ یونیورسٹیاں صحافت کے کورسس چلانے لگی ہیں جہاں سے فارغ ہونے والے مستقبل کے صحافیوں کی سوچ و فکر کو پہلے سے ہی ایک سمت دے دی جاتی ہے اور وہ انہی اصولوں پر گامزن ہوتے ہیں جن کو صحافت کے اعلیٰ اقدار سے معنون کردیاگیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے صحافی‘ صحافت کو ذہن سازی کا ذریعہ سمجھنے کی بجائے اطلاعات رسانی کا ذریعہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ صحافت میں صرف ٹھیٹ صحافتی مقاصد کو ہی ملحوظ نہیں رکھنا پڑے گا بلکہ مشتہرین کی ترجیحات اور قارئین کے ذوق کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ توازن اور اعتدال پسندی کے نام پر صحافت میں ذہن سازی اور حقائق کی پیشکشی سے گریز کیا جانے لگا ہے تاہم مالکین و شراکت داروں کی ایماء پر مواد پیش کرتے ہوئے یہی صحافی حضرات ان تمام اصولوں کو فراموش کر بیٹھتے ہیں جن کی دہائی وہ دوسرے معاملات میں دیتے ہیں۔ اس کے باعث وہ ایک متلون مزاج کے حامل بن جاتے ہیں اور وہ نظریات و افکار کے تلاطم کا شکار بن جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کورسس کے ذریعہ ایک مخصوص ذہن دئیے جانے کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ یونیورسٹیوں کے صحافتی کورسس کی کوئی وقعت نہیں ہے یا پھر یونیورسٹیوں کے فارغ صحافیوں کی سوچ وفکر خمیدہ ہوتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں ان کورسس کے ذریعہ ایک دو برسوں میں جوکچھ سکھایا جاتا ہے اس کو عملی صحافت میں سمجھنے اور سیکھنے کے لئے برسوں لگ جاتے ہیں۔ اس لئے ایک اچھا صحافی بننے کے لئے جہاں پیشہ ورانہ تربیت کی ضرورت ہے وہیں تجربات سے بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک ادارتی پہلو کا تعلق ہے صحافتی ادارے اپنی بقاء کے لئے فحش لٹریچر اور بیہودہ مناظر کی پیشکشی کے ذریعہ قاری یا ناظر کو باندھے رکھنے کی کوششوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی مسابقت میں لگ چکے ہیں۔ صحافتی ادارہ کے مالیہ کو مستحکم بنانے اور خوب منافع حاصل کرنے کے لئے مشتہرین کے ذوق و مزاج کے مطابق مواد پیش کیا جانے لگا ہے اور ان کے تجارتی مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے حقائق کے انکشاف سے گریز کیا جانے لگا ہے۔ اب تو اہم سماجی مسائل پر خاموشی کو حربہ کے طور پر اختیار کیا جانے لگا ہے۔ صحافیوں کو حق گوئی اور انسانیت دشمن عوامل کے خلاف کھل کر اظہار خیال کرنے سے سے باز رکھنے ایک فلسفہ دیا گیا کہ صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہئے جبکہ صحافی کو غیر جانبدار نہیں بلکہ حق کا طرفدار ہونا چاہئے ۔ یہی ایک سوچ ہے جو ماضی کے صحافیوں اور موجودہ صحافیوں میں ایک خط فاصل کھینچ دیتی ہے۔ ماضی میں جتنے بھی عظیم صحافی گذرے ہیں وہ حالات اور و قوعات کی غیر جانبدارانہ منظر کشی پر اکتفا کرنے کی بجائے اپنے قارئین کو ان کے نتائج سے بھی آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور ان لوگوں اور نظریات کے خلاف ایک محاذ کھول دیتے تھے جو سماج کے لئے مضرت رساں ثابت ہوتے تھے۔ ماضی کے اخبارات کے قراطیس شاہد ہیں کہ خبروں سے زیادہ تبصرے اور آراء کو جگہ دی جاتی تھی ‘ اس کے برخلاف آج صرف غیر جانبدارانہ منظر کشی کو صحافت کی دیانتداری پر محمول کیا جانے لگا ہے اور تفریحات کے نام پر فحاشی اور بے حیائی کو عام کیا جانے لگا ہے۔ مشتہرین کے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے قارئین کو گمراہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ یہ سچ ہے کہ غیر جانبداری کے نظریہ کی وکالت کرنے والے بیشتر صحافی کسی بھی طاقت یا گروہ کے مفادات کے اسیر بننا نہیں چاہتے اور دیانتدارانہ انداز میں اپنے مفوضہ فرائض انجام دینا چاہتے ہیں مگر اس سوچ کے نتیجہ میں وہ اپنے پیشہ کے ساتھ ویسا انصاف نہیں کرپاتے جو اس کا حق ہے۔ اسی سوچ کے نتیجہ میں ایسے صحافی ظالم اور مظلوم‘ غالب و مغلوب ‘ غاضب و مغضوب دونوں کا مدعا اپنی رپورٹنگ میں پیش کردیتے ہیں‘ جس کے باعث قارئین اور ناظرین کو نتیجہ اخذ کرنے میں اپنے فہم کو استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس پیشہ میں بہت سی کالی بھیڑیں بھی گھس آگئی ہیں جو اپنی منفعت کے لئے سماج دشمن طاقتوں کے اشاروں پر صحافت کو استعمال کرنے لگی ہیں۔ یہ صحافی حقیر مفادات کی خاطر دانستہ اور نادانستہ طور پر ان طاقتوں کا آلہ کار بن بیٹھتے ہیں جو انسانیت کے لئے خطرہ ہیں۔
صحافت کے مظاہری‘ قیاسی‘ انتقامی سازشی ‘ نظریاتی اور ادراکی پہلوؤں پر بحث سے قبل‘ اس پیشہ میں قدم رکھنے والے صحافیوں کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کہ دیگر پیشوں کے برخلاف سماج کے تئیں اس پیشہ کی ذمہ داریاں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ایک صحافی تاریخ کا پہلا شاہد اور گواہ ہوتا ہے اس لئے اسے وقوعات کی منظر کشی میں بہت ہی احتیاط سے کام لینا ہوگا اور اسے ان موضوعات پر قلم اٹھانے سے قبل جس کے مستقبل پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ماضی کے واقعات کا بھی کماحقہ علم رکھنا ہوگا۔ یہ دور علاقائی جنگوں کا دور ہے۔ اور میدان جنگ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے لئے نوٹ بک اور ایک کیمرہ سے زیادہ تاریخ کی کتاب اپنے ساتھ رکھنا ہوگا ورنہ ہم جنگوں کو فٹ بال میاچ کی طرح سمجھنے لگتے ہیں اور ہم دونوں طرفین کو مماثل وقت دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے حقیقی صورتحال کو پیش کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جنگوں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی جنگ اور قتل عام کے گواہ ہوتے ہیں۔ انہیں اس فرق کا نہ صرف خیال رکھنا ہوگا بلکہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بھی اس فرق کو اجاگر کرنا ہوگا۔
پیشہ صحافت سے وابستہ جید صحافیوں نے جو اصول مرتب کئے ہیں ان کی رو سے صحافت کی پہلی ذمہ داری سچائی کا ساتھ دینا ہے۔ صحافی کو عوام کے سامنے قابل اعتبار اور صحیح حقائق پیش کرنا چاہئے۔ صحافت‘ مطلق اور فلسفیانہ ادراک میں سچائی کی تلاش نہیں کرپاتی بلکہ عملی طور پر حقائق کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔ یہ صحافتی سچ ایک عمل ہے جو حقائق کو مجتمع کرنے اور ان کی تصدیق کے پیشہ ورانہ ڈسپلن سے شروع ہوتا ہے۔ کسی بھی مسئلہ کی توضیح‘ تشریح‘ تبصرہ ‘ تنقید ‘ تجزیہ اوراس پر بحث کرتے ہوئے حقائق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ گوکہ صحافتی ادارہ کو بہت سے لوگوں جیسے مشتہرین اور حصص داروں کے مفادات کا خیال رکھنا پڑتا ہے مگر ان اداروں میں کام کرنے والے صحافیوں کو بلا کسی خوف و خطر خبررسانی کرنی ہو تو انہیں عوام کے تئیں وفاداری اور عظیم تر عوامی مفادات کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ایک حقیقی صحافی کسی کا تابع نہیں ہوتا۔ عوام کے تئیں وفاداری صحافتی ادارے کے اعتبار کو بھی بڑھاتی ہے اور اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ کوریج میں اپنوں یا مشتہرین کی طرف جھکاؤ نہیں ہے۔ ایک صحافی کو سماج میں موجود تمام گروپس کی نمائندہ تصویر پیش کرنی چاہئے اور ایسا کرتے ہوئے اس کا میلان سچائی کی طرف ہونا چاہئے۔ انہیں ہمیشہ یہ خیال رکھنا ہوگا کہ ان کے قلم یا زبان سے اس پیشہ کا استحصال نہ ہونے پائے۔ کسی بھی مسئلہ پر تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے سے قبل ایک صحافی کو تمام پہلوؤں کا باریک بینی سے تجزیہ کرنا چاہئے اور حقائق کی مختلف ذرائع سے توثیق کرنی چاہئے‘ ورنہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے صرف ایک ہی رخ سامنے آتا ہے اور ہم دوسرے رخ سے واقف ہی نہیں ہوپاتے۔ خاص کر تحقیقاتی صحافت کو اپنا شعار بنانے والے صحافیوں کو چاہئے کہ کسی اسکام کو بے نقاب کرتے ہوئے یا حقائق پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس بات کا خیال رکھے کہ ان کے قلم کی زد میں کوئی بے قصور ‘ معصوم فرد یا عہدیدار نہ آنے پائے کیونکہ اکثر پردہ کے پیچھے رہ کر کام کرنے والے تو بچ نکل جاتے ہیں اور کوئی دوسرا ہی پھنس جاتا ہے۔
اس ڈیجیٹل دور میں ذرائع ابلاغ کے مابین کڑی مسابقت کے باعث اکثر صحافی وقت کے خلاف دوڑ لگاتے نظر آتے ہیں۔ ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ خبروں کی بہترین سائٹ یا چیانل وہ ہے جو صداقت اور فراست کی پرواہ کئے بغیر تیزی سے خبروں کی نشریات و اشاعت عمل میں لائے۔ اگرچہ وقوعات کی رپورٹنگ میں تعجیل میں کوئی قباحت نہیں ہے مگر قیاس اور اندازوں کی بنیاد پر ایسا تبصرہ یا انکشاف نہ کیا جائے جس کا خمیازہ سماج کو بھگتنا پڑے۔ فسادات‘ فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردانہ حملہ کے واقعات یا پھر کسی بڑے حادثہ کے موقع پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں اکثر رپورٹرس خدشاتی اموات کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کردیتے ہیں یا پھر پولیس کے کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل ہی اپنے طور سے مشتبہ لوگوں کا انکشاف کرنے لگتے ہیں جو بعد میں بالکل غلط ثابت ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے قارئین؍ ناظرین میں غیر ضروری سراسمیگی پھیل جاتی ہے اور بسا اوقات ان واقعات کے ردعمل کے طور پر دوسرے پرسکون علاقوں میں بھی کشیدگی پھیل جاتی ہے۔ خصوصی خبروں کی اشاعت و نشریات میں بہت ہی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردانہ حملوں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی جذبات سے مغلوب ہوجاتے ہیں اوران دیکھے دہشت گردوں کی مذمت اور ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی فراموش کرجاتے ہیں کہ انسانیت پر ڈھائے جانے والے ظلم کی تکفیر کرتے ہوئے وہ خود راست یا بالواسطہ طور پر ایک مخصوص سماجی گروہ کے خلاف ظلم کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں اور ان کے منافرت پر مبنی تبصرے مختلف سماجی گروہوں میں دوریاں اور دراڑیں پیدا کردیتی ہیں۔
ایک صحافی کو ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ صحافت پر یہ عظیم تر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان لوگوں پر گہری نظر رکھے جن کی طاقت اور رتبہ عوام پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ آزادانہ صحافت کے معیار کو برقرار رکھنے کے لئے صحافی کو ظلم و جبر کے خلاف ایک ایسی فصیل بن کر کھڑا ہونا چاہئے جس کو عدلیہ تسلیم کریں اور شہری اعتماد کریں۔ بہ حیثیت صحافی ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مالی فائدہ کے لئے صحافت کا حقیر استعمال یا استحصال کرتے ہوئے اس کے تقدس کو پامال کرنے کے جرم کا ارتکاب نہ کرے۔ سماجی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی ملحوظ رکھنا ہوگا کہ صحافت ایک مقاصد کی حامل قصہ گوئی ہے۔ صحافت کی اپنی بقاء کے لئے یہ توازن برقرار رکھنا ہوگا کہ قارئین و ناظرین کیا چاہتے ہیں اور انہیں جس کا ادراک نہیں ہے اس سے بھی آگہی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسے صحافیوں کو چاہئے کہ شہریوں کو درکار معلومات زیادہ سے زیادہ فراہم کرتے ہوئے ان کے فہم و ادراک کو بڑھائے۔
ان دنوں سطحی نوعیت کی صحافت میں صرف واقعات کے مظاہری پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی جانے لگی ہے۔ ایوان اقتدارکی سرگرمیوں‘ سفارتی پہلیوں‘ مملکتی پالیسیوں اور جنگی میدانوں کے تعلق سے اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ کبھی کبھار بلکہ بسا اوقات کانوں کا سنا اور آنکھوں کا دیکھا بھی فریب ہوسکتا ہے۔ ایک صحافی کو جہاں مظاہری عوامل کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے وہیں اسے اس کے پس پردہ محرکات اور ظاہری واقعات کے پیچھے چھپی حقیقت کو بھی آشکار کرنا ہوگا جس کے لئے اسے اقوام کے عروج و زوال کی تواریخ‘ سیاسی ریشہ دوانیوں‘ سفارتی چالبازیوں‘ جنگی حربوں کا بھی کماحقہ فہم رکھنا ہوگا ورنہ ظاہری عوامل پر ہی اکتفا کرنے والے صحافی نہ صرف خود غلط فہمیوں میں مبتلا رہتے ہیں بلکہ وہ اپنے قارئین و ناظرین کی سماعت و بصارت پر بھی غفلت کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں۔ ایک عرصہ بعد دنیا کے سامنے یہ حقیقت سامنے آہی گئی کہ ہٹلر جسے یہودیوں کا دشمن سمجھا جاتا تھا اس نے دراصل یہودی اکابر کی ایماء پر ہی یہودیوں پر مظالم ڈھائے تاکہ وہ اسرائیل میں جائے پناہ اختیار کرنے پر آمادہ ہوجائے‘ اس سارے مشن کو ہولو کاسٹ سے موسوم کیا گیا مگر اب حقائق پر سے پردہ اٹھنے لگا ہے کہ کس طرح ہٹلر یہودیوں کے آلہ کار کے طور پر ہی کام کرتا رہا تھا۔ صرف واقعات کے مظاہر پر ہی توجہ مرکوز کرنے والے صحافی اپنی دانست میں یہ باور کئے ہوئے ہوتے ہیں کہ وہ نہایت ہی غیر جانبداری سے اپنے مفوضہ فرائض انجام دے رہے ہیں مگر وہ صحیح تجزیہ پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور پیش قیاسی کرنے میں وہ اکثر مات کھاجاتے ہیں۔ ایسے صحافیوں کو ایک عرصہ بعد اندازہ ہوہی جاتا ہے کہ جس کو وہ دیانتدار اور عوام کا بہی خواہ سمجھتے تھے وہ حقیقتاً نہایت ہی بددیانت اور عوام کا بدخواہ ہے۔ یہ حقیقتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ عوام کی بہبود و فلاح کے لئے شروع کی جانے والی اسکیمات کا اصل مقصد عوام کو فائدہ پہنچانا نہیں تھا بلکہ اس کی آڑ میں خود کا اور اپنے حواریوں کی جیبیں بھرنا مقصود تھا۔ اسی طرح سفارتی سطحوں کے معاملات دیکھنے والوں پر بھی بعد میں یہ عقدہ کھلتا ہے کہ دوستی کی پہل کے پس پردہ اصل مقاصد کیا تھے۔ سفارتی سطحوں کے امور سے نمٹنے والے صحافیوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ نہایت ہی باریک بینی سے ہر پہلو کا جائزہ لے اور کوئی نتیجہ اخذ کرے۔ جنگوں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو تو بہت زیادہ محتاط رہنا پڑتا ہے۔ بے بنیاد دعوؤں اور ایک فریق کے دوسرے فریق کے زیر کنٹرول علاقوں پر قبضے یا کسی فریق کے فرار اختیار کرجانے کے دعوؤں کو پیش کرنے میں عجلت سے کام نہ لیں۔ چونکہ متحارب گروپس دوران جنگ غیر مرکوز رہتے ہیں اور ایک علاقہ میں کسی کے ہتھیار ڈال دینے یا پسپائی قبول کرلینے کی خارجی اطلاع کے باعث مضبوط گڑھ میں رہنے والی افواج یا جنگجوؤں کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی بجائے پیچھے ہٹ جانے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ جنگی محاذ میں افواہوں سے بھی اکثر جنگوں کا رخ بدل جاتا ہے اور غالب آنے والا گروہ مغلوب بن جاتا ہے۔ جنگوں کی رپورٹنگ کے دوران محاذ آرائی اور قتل و غارت گری کو نمایاں فرق کے ساتھ پیش کرنا ہوگا تاکہ غارت گری کرنے والوں پر عالمی برادری کا دباؤ بن سکے اور نتیجتاً معصوم لوگوں کی جانوں کا ضیاع نہ ہونے پائے۔
فی زمانہ ایسے صحافیوں کی بھی بہتات ہوچکی ہے جو قیاس کو اپنا شیوہ بنائے ہوتے ہیں۔ واقعات کی رپورٹنگ کے دوران کبھی بھی قیاس سے کام نہیں لینا چاہئے چونکہ اس سے صحافی اور صحافتی ادارہ کی معتبریت متاثر ہوجاتی ہے‘ البتہ تجزیہ و تبصرہ میں قیاس کی گنجائش رہتی ہے لیکن توازن کا خیال رکھا جائے تو اعتبار متزلز نہیں ہوپاتا۔ سیاسی تبدیلیوں پر قیاس سے کام لینے والے صحافی کی وقعت نہیں رہتی۔اگرچہ قیاس پر مبنی مواد کی پیشکشی کے باعث وقتی طور پر پذیرائی تو ہوتی ہے مگر طویل مدت میں یہ فن کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ جنگوں کی رپورٹنگ کے دوران قیاس بہت ہی خطرنا ک ثابت ہوتا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جنگوں کی رپورٹنگ کے لئے بھیجے جانے والے بیشتر صحافی ہوٹلوں میں بسیرا کئے ہوتے ہیں اور اپنے کچھ ساتھیوں کی فراہم کردہ اطلاعات اور مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات پر اکتفا کرتے ہوئے جنگ کا احوال بیان کرنے لگتے ہیں جس کے لئے انہیں زیادہ تر قیاس سے کام لینا پڑتا ہے۔ خاص کر کسی مذہبی مسئلہ پر عموماً صحافی پہلے ہی سے اپنے قیاس پر اسٹوری تیار کرلئے ہوتے ہیں اور کسی مذہبی رہنما سے رجوع ہوتے ہیں اور ان کے چند اقوال کو ہی شامل اسٹوری کرتے ہیں۔
ایک صحافی کو ہمیشہ انتقامی جذبہ سے مبرا ہونا چاہئے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ صحافی بھی اپنے مذہب‘ زبان‘ علاقہ سے محبت رکھتا ہے اور ان معاملات میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس کا اپنا میلان غالب آجاتا ہے مگر جب ان معاملات میں دوسروں سے تقابل کی نوبت آتی ہے تو بہت کم صحافی انتقامی جذبہ سے عاری نظر آتے ہیں اور ایسے ہی صحافیوں کی قدر و منزلت ہوتی ہے جو اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ دیگر معاملات میں توازن برقرار رکھنے والے صحافی بھی ان امور میں انتقامی ذہنیت پر قابو نہیں کرپاتے اور اپنے مخالفین کے تئیں سخت نہ سہی دبے دبے انداز میں منافرت کا اظہار کردیتے ہیں۔ خاص کر مذہب کے معاملات میں انتقامی پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے۔ انتقامی صحافت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک فرد یا چند افراد کی کارستانیوں کو ایک فرقہ کی ریشہ دوانیوں پر محمول کردیا جائے۔ اسی طرح کبھی کبھار کسی عہدیدار یا سیاسی رہنما کے بارے میں بھی اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے اندر اس کے تئیں پایا جانے والا انتقامی جذبہ سرائیت کرجاتا ہے۔ اگرچہ اس سے عموماً صرف ایک فرد کے ساتھ حق تلفی ہوتی ہے مگر اس کی نفی کرتے ہوئے ہم کبھی کبھار ایسی غلطی کر بیٹھ جاتے ہیں جس کا خمیازہ سماج کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ایک دور تھا کہ صحافت‘ سازشوں کو آشکار اور سازشیوں کو بے نقاب کیا کرتی تھی مگر اب خود صحافت سازشوں میں عملی طور پر حصہ لینے لگی ہے۔ صحافت کا یہ پہلو نہایت ہی خطرناک ہوتا ہے اور اس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ اور استبدادی طاقتیں اپنی مقصد براری کے لئے صحافت کے ذریعہ سازشیں کرنے لگی ہیں۔ ہمارے سامنے ایسی کئی نظیریں آہی جاتی ہیں کہ ایک ملک‘ ایک قوم یا ایک گروہ کے خلاف کی جانے والی سازشوں میں صحافت نے کس طرح کا رول ادا کیا ہے۔ بعض کیسس میں صحافتی ادارہ ہی سازشوں کا آلہ کار بن جاتا ہے تو بعض کیسس میں ذرائع ابلاغ کے چند نمائندوں کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ حقائق سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود یا تو جھوٹے پروپگنڈہ کو اپنا شعار بنالیتے ہیں یا پھر کسی واقعہ یا حادثہ کو ایسے منطقی انداز میں پیش کرتے ہیں کہ حقیقت کہیں چھپ کر رہ جاتی ہے۔ اس پہلوکو ہم عراق میں امریکی مداخلت کاری اور صدام حسین کی بے دخلی سے قبل عراق کے پاس عام تباہی کے کیمیائی و حیاتیاتی جراثیمی ہتھیاروں کی موجود گی کے بارے میں شائع اطلاعات و رپورٹس سے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک مخصوص لابی کے ذریعہ ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کو یہ باور کروادیا گیا تھا کہ عراق کے پاس عام تباہی کے ہتھیار موجود ہیں مگر اس کے بعد دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اتحادی افواج کے سامنے صدام حسین کی افواج کتنی دیر ٹک پائی۔ عام تباہی کے ہتھیاروں کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرنے والے صحافتی اداروں نے اپنی اس فاش غلطی پر معذرت خواہی کرنا تک گوارہ نہیں کیا۔ اسی طرح افغانستان پر حملہ کے لئے 9/11 حملوں کو جواز بنایا گیا اور اس میں بھی صحافت نے نہایت ہی خطرناک رول ادا کیا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی جو نہایت ہی خطرناک مہم شروع کی گئی ہے اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ یوروپ و امریکہ میں اسلام کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔ اسی طرح مذہبی محاذ پر بھی نہایت ہی گہری سازشیں کی جاتی ہیں۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ ذرائع ابلاغ میں فتاویٰ کی بوچھار ہونے لگی تھی۔ ان فتاویٰ میں کچھ مضحکہ خیز فتاویٰ بھی منظر عام پر لائے گئے تھے۔ مصر کے لوگ کوئی لطیفہ سنانا ہوتو اپنے مخاطب سے پوچھا کرتے تھے کہ تمہیں پتہ ہے آج کا لطیفہ کیا ہے ؟ مگر ان فتاویٰ کی بھرمار کو دیکھتے ہوئے وہاں لوگ ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کردئیے تھے کہ تمہیں آج کے تازہ فتویٰ کے بارے میں کچھ جانکاری بھی ہے؟ عام لوگ تو یہ سمجھنے لگے تھے کہ ہمارے مفتی صاحبان کو اپنی تشہیر کا چسکا لگ گیا ہے مگر ان فتاویٰ کی بھرمار کے پس پردہ اصل سازش یہ تھی کہ عام مسلمانوں کو فتوؤں کے تئیں بدظن کردیا جائے اور اس میں بڑی حد تک کامیابی ملی ہے جو ایک حفظ ماتقدم کارروائی تھی چونکہ مستقبل قریب میں چند مخصوص مسلم ممالک کی جانب سے ایسے ناقابل یقین اقدامات کئے جانے والے ہیں جو شریعت اسلامی کی صریح خلاف ورزی تصور کئے جائیں گے اور ان کے خلاف جید علمائے کرام کا شدید ردعمل آنا فطری امر ہوگا اور ایسے میں مسلم امہ میں حکمرانوں کے تئیں بغاوت کے جذبات بھڑک اٹھنا یقینی ہوجائے گا۔ اسی لئے فتوؤں کی وقعت گھٹانے بعض مضحکہ خیز فتوئے دانستہ طور پر حکمرانوں کی ایماء پر جاری کئے گئے اور ان کی خوب تشہیر بھی کی گئی۔
ہر صحافتی ادارہ اور صحافی کے اپنے کچھ نظریات ہوتے ہیں اور وہ ان کی پاسداری کرتے رہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں کے نظریات میں ہم آہنگی پائی جائے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ادارہ کے نظریات اور اس میں کام کرنے والے صحافیوں کے نظریات میں یکسانیت و مماثلت پائی جائے۔ حالات اور وقت کے اعتبار سے نظریات و افکار میں تبدیلی بھی ایک فطری امر ہے مگر اس تبدیلی سے بنیادی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آتا ہے۔ نظریات و افکار سے عاری صحافت صرف پیغام رسانی کا ذریعہ بن کر رہ جائے گی چونکہ ایسی صحافت سماج کی تعمیر میں کوئی رول ادا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ ادارہ کے افکار سے یکسر تضاد رکھنے والے صحافی تصادم کی راہ اختیار کرنے لگتے ہیں ۔ گھٹن اور تناؤ میں کام کرنے کی بجائے انہیں چاہئے کہ یا تو اپنی سوچ میں موافقت پیدا کرلیں یا پھر ایسے ادارہ کا انتخاب کرلیں جس کی پالیسی ان کے افکار سے میل کھاتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ نظریاتی صحافت نے دنیا میں بڑے بڑے انقلابات میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے‘ کبھی کبھار نظریاتی صحافت سماج میں تصادم کی راہ ہموار کرتی ہے۔ جب کوئی ادارہ یا صحافی کسی کے بارے میں منفی انداز اختیار کرلیتا ہے تو وہ اس کی خوبیوں کو بھی خامیوں کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ اور ہم آہنگ نظریات کے حامل حکمرانوں‘ پالیسی سازوں‘ بیوروکریٹس‘ سیاسی پارٹیوں اور سماجی گروپس کی بے جا تائید و حمایت کرنے میں لگ جاتا ہے جس کی وجہ سے ادارہ اور صحافی دونوں کا اعتبار دوسروں کی نظروں میں جاتا رہتا ہے۔ اس لئے نظریات کے معاملہ میں اعتدال پسندی کی راہ اختیار کرنے میں ہی عافیت ہے۔
فہم و ادراک صحافت اور صحافی کا خاصہ ہونا چا ہئے۔ کسی بھی مسئلہ پر فہم و ادراک کا مظاہرہ کرنے والے صحافتی ادارے اور صحافی حضرات کامیاب ترین شمار کئے جاتے ہیں چونکہ وہ مسئلہ کی تہہ تک پہنچ کر اس کے حسن و قبیح سے آگہی کے بعد اپنا موقف اختیار کرتے ہیں۔ ایسے صحافیوں کو ورغلانہ اور انہیں فریب دینا آسان نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی رو میں بہک سکتے ہیں۔ ایسے ہی صحافیوں نے بڑے بڑے رازوں پر سے پردہ اٹھایا ہے۔سفارتی بیانات میں پنہاں منصوبوں‘ مملکتی سربراہوں کی پہل وغیرہ سے لطیف اشارے پاتے ہوئے اور واقعات کے مظاہری پہلوؤں سے منطقی نتائج اخذ کرتے ہوئے امکانات کے تانے بانے جوڑ کر مستقبل میں پیش آنے والے بڑے بڑے سانحوں اور واقعات کو بھانپ لینا اور اس کی پیش قیاسی کرنا ہی ادراکی صحافت ہے اور یہی سب سے کامیاب ترین صحافت ہے۔
صحافت پر بڑی حد تک کنٹرول کرلینے کے باوجود او ذرائع ابلاغ کے ذریعہ عوام کے افکار و نظریات کو اپنے مقاصد کے تابع کرنے میں استبدادی قوتیں کامیاب نہیں ہو پائیں چونکہ صحافت ہنوز کسی ایک مخصوص طاقت کی اسیر نہیں بن پائی ہے۔ عوامی افکار کو ایک مخصوص رخ دینے صحافت پر انحصار کرنے کی بجائے انٹر نیٹ کے توسط سے سوشیل نٹ ورکنگ کو فروغ دیا جانے لگا ہے۔ مستقبل قریب میں یہ آشکار ہوجائے گا کہ کس طرح سوشیل نٹ ورکنگ کے ذریعہ غلط معلومات کو عام کرتے ہوئے عوام کی سوچ و فکر کو کنٹرول کیا گیا اور ایک مخصوص زاویہ پر ہی مرکوز رکھا گیا۔
اطہر معین
حیدرآباد، دکن
+91 9848992551
[email protected]