Monday, May 20, 2024
Homeٹرینڈنگطلاق ثلاثہ کے خلاف آرڈیننس منظور

طلاق ثلاثہ کے خلاف آرڈیننس منظور

گذشتہ برس اگست میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے مرکزی حکومت کو مناسب قانون سازی کرنے کی ہدایت دی تھی۔جموں و کشمیر پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔

- Advertisement -
- Advertisement -

1 طلاق ثلاثہ ہنوز ناقابل ضمانت ہے اور تین سال کی سزائے قید اور جرمانہ ہوگا۔
.2 طلاق ثلاثہ کو اسی صورت میں جرم تصور کیا جائے گا جب ایک خاتون یا اس کے خونی رشتہ دار یا نکاح کے امور سے جڑے افراد ہی پولیس میں شکایت کرتے ہیں۔
.3 خاتون کی رضامند ی کی صورت میں ہی مفاہمت ہوسکے گی اور اس کا اظہار مجسٹریٹ کے روبرو ہوگا۔ ایک مجسٹریٹ ہی ضمانت منظور کرسکتا ہے مگر اس کے لئے خاتون کو اپنی بات رکھنے کا موقع دینا ہوگا۔
.4 جوڑے کے نابالغ بچوں کی پرورش ماں کے سپرد ہوگی۔
.5 ماں اور بچوں کا نان و نفقہ طلاق دینے والے پر ہوگا جس کا تعین مجسٹریٹ کرے گا۔
.6 قانون کا اطلاق جموں و کشمیر پر نہیں ہوگا۔

حیدرآباد۔مرکزی کابینہ نے بدھ کوآرڈیننس منظور کرتے ہوئے یکلخت طلاق ثلاثہ (طلاق بدعۃ) کو مستوجب سزائے قیدقرار دیتے ہوئے آرڈیننس کو منطوری دے دی ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ برس اگست میں سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی بنچ نے طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے مرکزی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ اس کے تدارک کے لئے مناسب قانون سازی کی جائے ، جس کے بعد مودی حکومت نے لوک سبھا میں اس خصوص میں بل’’ مسلم خواتین (تحفظ حقوق زوجیت ) 2017 ‘‘پیش کرتے ہوئے منظوری حاصل کرلی تھی تاہم راجیہ سبھا میں خاطر خواہ اکثریت نہ ہونے کے باعث Muslim Women (Protection of Rights on Marriage) Bill کو پیش نہیں کیا جاسکا تھا۔بعدازں مرکزی کابینہ نے اس بل میں چند ترامیم کو منظور دی تھی۔ اس آرڈیننس کی اہم خدو خال یہ ہیں کہ اگر کوئی بیک وقت تین طلاق دے گا جس کے لئے عدالت عظمی نے طلاق بدعۃ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے تو وہ تین سال سزائے قید کا مستوجب ہوگا۔ طلاق ثلاثہ کے خلاف شکایت کرنے کا حق اس خاتون کو ہوگا جس کو طلاق دی گئی ہے یا پھر اس کے خونی رشتہ دار یا پھر وہ افراد جو اس کے نکاح کے امور سے منسلک رہے تھے۔ اسی طرح صرف خاتون کی ایماء پر ہی مصالحت و مفاہمت کی گنجائش رہے گی ، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر کوئی خاتون یہ شکایت کرے کہ اسے طلاق بدعۃ دے دی گئی ہے مگر شوہر اسے اپنا نا بھی چاہے تو یہ اسی وقت ممکن ہوگا اگر شکایت کنندہ خاتون بھی اس پر آمادہ ہو۔ اسی طرح اس آرڈیننس کی رو سے طلاق بدعۃ کی شکایت پر ملزم کو پولیس اسٹیشن سے ضمانت نہیں مل سکے گی ۔ مجسٹریٹ کو ہی ضمانت دینے کا اختیار ہوگا ۔ مجسٹریٹ کے لئے بھی یہ لازم ہو گا کہ ضمانت منظور کرنے سے قبل شکایت کنندہ خاتون کا مؤقف بھی جانے اور اس کے استدلال کی سماعت کرے۔ طلاق ثلاثہ سے علحدہ ہونے والے جوڑے کی نابالغ اولاد پر حق حصانت خاتون کا ہوگا یعنی نابالغ اولاد خاتون کی زیر پرورش دئیے جائیں گے اور ملزم پر اس خاتون اور اس کے بچوں کو نان و نفقہ ادا کرنا ہوگا۔اس آرڈیننس کا اطلاق جموں و کشمیر پر نہیں ہوگا۔

وزیر قانون مسٹر روی شنکر پرساد نے آج یہاں ایک پریس کانفرنس میں اس آرڈیننس کی منظوری سے واقف کرواتے ہوئے کہا کہ طلاق ثلاثہ کے واقعات کی روک تھام کے لئے آرڈیننس کی منظوری ایک دستوری عجلت تھی چونکہ جنوری 2017 سے ستمبر 2018 تک طلاق ثلاثہ کے 430 واقعات رونماء ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بارہا کوشش کی تھی کہ اس مسئلہ پر کانگریس کا ساتھ لے سکے مگر کانگریس پارٹی نے ووٹ بینک کے دباؤ میں آکر اس بل کو پارلیمنٹ میں اتفاق رائے سے منظوری دلانے میں حکومت کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور مسٹر اننت کمار نے اس خصوص میں کانگریس کے قائد مسٹر غلام نبی آزاد سے متعدد مرتبہ بات کرنے کی کوشش کی مگر کوئی مثبت ردعمل نہیں آیا۔ آرڈیننس کی منظوری پر کانگریس پارٹی نے اپنے اولین ردعمل پر کہا کہ مرممہ بل نے ہماری تشویش کو دور نہیں کیا ہے کہ کس طرح متاثرہ خاتون کو نان نفقہ ادا کیا جائے گا جب طلاق دینے والا شوہر جیل بھیج دیا جائے گا۔ کانگریس قائد مسٹر رندیپ سرجے والا نے کہا کہ ہم نے تجویز پیش کی تھی کہ شوہر کی جائیداد کو قرق کرلیا جائے لیکن مودی حکومت ، مسلم خواتین کو انصاف دلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ صدر مجلس اتحاد المسملین و رکن پارلیمنٹ بیر سٹر اسد الدین اویسی نے آرڈیننس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی حکومت ، مسلمانوں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ طلاق ثلاثہ آرڈیننس کا مساوات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ مغالطہ دینے حکومت کا حربہ ہے۔