Sunday, May 19, 2024
Homeٹرینڈنگعام آدمی پارٹی کی کامیابی سے کیا مسلمانوں کو فائدہ ہوگا

عام آدمی پارٹی کی کامیابی سے کیا مسلمانوں کو فائدہ ہوگا

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ہندوستان کی تاریخ میں دہلی اسمبلی انتخابات کو شاید کبھی اتنی اہمیت نہیں دی گئی تھی جتنے اہم وہ اس مرتبہ ہوچکے ہیں ۔ صرف ہندوستان کی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی نظریں دہلی اسمبلی انتخابات میں ٹکی ہوئی ہیں جہاں 8 فروری کو چیف منسٹر کے انتخابات کےلئے رائے دہی ہوگی اور 11 فروری کو نتائج بھی آجائیں گے ۔ دہلی انتخابات کےلئے جہاں عام آدمی پارٹی نے اپنی کارکردگی کو پیش کرنے کےلئے علاوہ بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنایا وہیں بی جے پی نے شاہین باغ کو موضوع بناتے ہوئے پھر ایک مرتبہ تعصب اور فرقہ پرستی کی گندی سیاست کھیلی ہے ۔

ویسے تو کسی بھی جمہوری ملک میں سب سے اچھا انتخاب وہ ہوتا ہے جس میں رائے دہند گان اچھے امیدوار اور اچھی پارٹی کا انتخاب کریں لیکن اس کو بد قسمتی ہی کہیں گے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت میں ان اقدار پر عمل نہیں کیا جاتا اور لوگ امیدوار منتخب کرتے وقت اپنی وفاداری، تعلقات، طبقاتی، مذہبی اور مسلکی قربت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ دہلی اسمبلی کے انتخابات میں بھی اسی طرح کے رجحانات نظر آئے ہیں اور یہ بھی اس لئے کہنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے کہ کیونکہ جن علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے وہاں رائے دہندگان سے اظہار خیال جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے بہت صاف الفاظ میں کہا کہ امیدوار تو بہت خراب ہے لیکن ہم تو قائد کو ووٹ دے رہے ہیں، ہم تو اپنے کو ووٹ دے رہے ہیں، پارٹی بہت اچھی ہے لیکن ہم اس کو ووٹ نہیں دے سکتے، کیونکہ ہماری اس سے قربت نہیں ہے۔ جب ملک کی تعلیم یافتہ دہلی میں ان بنیادوں پر ووٹر اپنے لئے امیدوار منتخب کرے گا تو جمہوریت کے مستقبل پر سوال اٹھنے لازمی ہیں۔

جیسے ملک کے بجٹ کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ پورے سال معاشی پالیسیوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، ویسے ہی اب پارٹی کے انتخابی منشور کی بھی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دہلی کی بر سر اقتدار پارٹی نے تو اپنا منشور ہی ووٹنگ سے پانچ دن پہلے جاری کیا اور منشور جاری کرتے وقت کسی صحافی کے کسی سوال کو اہمیت نہیں دی گئی ۔ 70 سال تک حکومت کرنے والی پارٹی نے لوک سبھا انتخابات میں بھی اور اسمبلی انتخابات میں بھی بہت محنت کی لیکن جیسے لوک سبھا میں انصاف بالاکوٹ کے حملہ میں دب گیا تھا ویسے ہی شاہین باغ کے شور میں بے روزگاری بھتہ بھی دب کررہ گیا۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں جو کچھ کہا گیا اس کا خود بی جے پی نے ذکر نہیں کیا اور پارٹی کے ہر رہنما نے بس بات کی تو شاہین باغ اور مسلمانوں کی بات کی ہے۔

جس طرح امریکہ میں دو بڑے میڈیا گھرانے فاکس اور سی این این الگ الگ پارٹی لائن پر منقسم نظر آتے ہیں ویسا ہی کچھ حال ہندوستانی میڈیا کا بھی ہے۔ جہاں ایک مخصوص طبقہ صرف زی اور ری پبلک ٹی وی کو مقدس سمجھتا ہے وہیں دوسرا طبقہ این ڈی ٹی وی کی خبروں کی قسمیں کھاتا ہے۔ ایسے میں صحیح کو صحیح کہنے اور لکھنے کا رجحان ختم ہو رہا ہے اور اپنے کو صحیح اور مخالف کو غلط کہنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ شعوری یا لا شعوری طور پر کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔

ان انتخابات کے نتائج کچھ بھی آئیں اور کوئی بھی پارٹی اقتدار میں آئے لیکن یہ نتائج ملک کی جمہوریت کے لئے بری خبر ہی لے کر آئیں گے۔ آزاد خیال اور ملک کی خوفزدہ اقلیتیں جہاں یہ دعائیں مانگ رہی ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون لانے والی حکومت کی پارٹی ان انتخابات میں شکست سے دو چار ہو اور اگر ان کی دعائیں قبول بھی ہوگئیں تو بھی ان کے لئے اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کو شکست دینے والی پارٹی وہ ہوگی جس نے اس لڑائی میں جیتنے کے لئے نہ صرف سمجھوتے اور مصلحت سے کام لیا ہے بلکہ خود کو اس لڑائی میں اتنا دور رکھا ہے کہ جب جے این یو میں مبینہ اے بی وی پی کے نقاب پوشوں نے طلباءکو تشدد کا شکار بنایا تب بھی انہوں نے پر اسرار خاموشی اختیار کی تھی ۔

اگر شہریت ترمیمی قانون بنانے والی فرقہ پرست جماعت شاہین باغ کے نام پر بر سر اقتدار آجاتی ہے تو پھر جمہوریت اور ملک کی اقلیتوں کی نہ صرف شکست ہوگی بلکہ وہ مزید مایوسی کا شکار ہو جائیں گے۔ دونوں صورتوں میں جمہوریت کے بنیادی تقاضوں سے سمجھوتہ اور اقلیتوں سے دوری کا فائدہ سامنے آئے گا جو اس ملک کی اقلیت اور اکثریت میں مزید فاصلہ بڑھائے گا کیونکہ سیاسی پارٹیوں کو یہ نتائج پیغام دینے میں کامیاب رہیں گے کہ اب ملک کی اقلیتیں اور ان کے مسائل انتخابی سیاست کے لئے اچھوت ہوگئے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ جو سیاسی پارٹیاں جمہوریت اور اقلیتوں کی فکر کرتی آج نظر آرہی ہیں وہ شکست کی صورت میں خود کو ان سے دور کرکے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں کہ ان کے لئے اب اقلیتوں کے مسائل سے دوری اختیار کرنے میں ہی بہتری ہے۔

مسلم دانشوروں کی اقلیتوں کے مسائل سے دوری اور علماءکی سیاسی بے شعوری و خوف کی وجہ سے اقلیتوں کے سامنے کوئی انتخابی حکمت عملی نہیں ہے جس کی وجہ سے خوف کے سائے میں جی رہے رائے دہندگان کے ذہن میں صرف یہ ہے کہ ووٹ تقسیم نہ ہو جائیں، کہیں بی جے پی بر سر اقتدار نہ آجائے۔ یعنی قیادت کے عدم فقدان، جذبات اور خوف کی وجہ سے اقلیت بغیر سوچے سمجھے اپنے ہمدرد اور دشمن میں تفریق کرنے میں ناکام رہی اور اس گڑھے میں گرگئی ۔ ملک کی اقلیتوں کے لئے اور ملک کی جمہوریت کے لئے آنے والے دن انتہائی تکلیف دہ ہونے والے ہیں۔

دہلی انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے اس سے قطع نظر دارالحکومت کی اسبملی کےلئے کی جانے والے رائے دہی کے نتائج ہندوستان اور اسکے جمہوری اقدار کےلئے ایک نئی راہ متعین کریں گے ۔شاہین باغ میں ناموافق حالات کے باجود کالے قانون کے خلاف کئی مہینوں سے سراپا احتجاج کرنے والے سیکولر ہندوستانیوں کے عزائم اور حوصلہ دہلی انتخابات سے منسلک ہوچکے ہیں۔