Friday, May 17, 2024
Homesliderفلسطین میں سحری کے وقت ڈھول بجانے کی روایت آج بھی...

فلسطین میں سحری کے وقت ڈھول بجانے کی روایت آج بھی برقرار

- Advertisement -
- Advertisement -

رملہ: رمضان مبارک میں سحری کے لیے روزہ داروں کو جگانا نہ صرف برصغیر بلکہ عرب ممالک کی  بھی قدیم روایات میں شامل رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق جدید ٹکنالوجی کے دور میں اس قدیم روایت کو برقرار رکھنے کے لیے فلسطین کی غزہ پٹی کے حجام عبدالخالق اپنے آبائی کام کے لیے میدان میں ہیں۔کورونا وائرس کے باعث وقتی طور پر حجاموں کی دکانیں  بند کردیئے جانے کے پیش نظر ایک حجام عبدالخالق ابو عطوان  ڈھول بجا کر سحری کے لیے روزہ داروں کو جگانے کا سلسلہ جارے رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہر سال ماہ مقدس میں شہر کے رہائشی علاقوں میں مسحراتی کا کام کر رہا ہے۔سحری سے قبل گھوم پھر کر روزہ داروں کو سحری کی تیاری کے لیے جگانے کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔عبدالخالق نے کہا کہ یہ ایک رواج ہے جو ہمارے ہاں نسل در نسل رائج ہے جو بہت سے دیگر مسلم ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔ان دنوں سحری سے قبل جب عبدالخالق شہر کی گلیوں میں ڈھول بجاتے گزرتا ہے تو اکثر شہری اور بچے اپنے گھروں سے باہر آکر یا کھڑکی میں سے اسے دیکھتے ہیں اور ا س کی پذیرائی کرتے ہیں۔

ابو عطوان نے کہا ہے کہ وہ گذشتہ سات برس سے جنوبی غزہ کی پٹی اور قریبی شہر رفحاء میں یہ خدمات انجام دے رہا ہے۔

ایک سرخ رنگ کی ٹوپی اور سفید اسکارف کے ساتھ فلسطینیوں کا روایتی لباس زیب تن کیے وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ سحور کھانا کھانے کے لئے گھر واپس آنے سے قبل تقریبا   90 منٹ تک اپنا ڈھول پیٹتے ہوئے مختلف گلیوں اورسڑکوں پر رہتا ہے۔عبدالخالق نےکہا کہ وہ لوگوں کے شوق اور تعریف کی وجہ سے سحری پر جگانے کا یہ کردار ادا کرنا پسند کرتےہیں۔حالانکہ  کمپیوٹر ، ٹی وی اور دیگر تکنیکی ترقی نے بہت سارے لوگوں کی عادات اور طرز زندگی کو تبدیل کردیا ہے لیکن اس کردار کو ابھی بھی قابل احترام سمجھا جاتا ہے اور رمضان کی اس خاص روایت نے اپنی مقبولیت برقرار رکھی ہے۔

اسرائیلی ناکہ بندی اور سیاسی بحران نے غزہ کی پٹی میں بسنے والے 20 لاکھ فلسطینیوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن عبدالخالق کے ڈھول بجانے کے اس جوش کو کم نہیں کرسکا۔کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس حجام کے اپنے ہیئر ڈریسنگ سیلون میں کاروبار نہیں ہے  تاہم اس نے یہ کام رضاکارانہ طور پر جاری رکھا ہے۔ اپنے اس کام اور کردار کے اعزاز میں بعض اوقات لوگوں سے نقد رقم اور دیگر تحائف بھی ملتے ہیں جس سے معاشی ماحول کو بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اس مرتبہ رمضان المبارک کے موقع پر اس کا ایک 25 سالہ دوست محمد شہات بھی اس کے ہمراہ ہے اس نے کہا ہے کہ انہیں مذہبی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔مزید کہا کہ یہ رواج رمضان المبارک کی اہم خصوصیات میں سےایک ہے۔