Wednesday, May 8, 2024
Homesliderقرآنی آیات کے خلاف وسیم رضوی کی درخواست سپریم کورٹ میں مسترد...

قرآنی آیات کے خلاف وسیم رضوی کی درخواست سپریم کورٹ میں مسترد اور 50 ہزار کا جرمانہ

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔ شیعہ بورڈ کے سابق چیئرمین سید وسیم رضوی کی قرآن مجید کی 26 آیات کو حذف کرنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے آج سپریم کورٹ نے نہ صرف اس کی درخواست کو مسترد کردی بلکہ اس پر  50ہزار کا جرمانہ بھی  عاید کردیا ہے ۔ درخواست میں رضوی نے کہا تھا کہ ان آیات کی وجہ سے نفرت اور دہشت گردی کو مبینہ طور پر فروغ مل رہا ہے ۔جسٹس روہنٹن فالی نریمن ، بی آر گاائئی اور ہریشکیش رائے پر مشتمل  بنچ نے اس عرضی کو بالکل بے بنیاد قرار دیا اور اس پر  50 ہزار روپئے کا جرمانہ بھی عاید کردیا ہے ۔

سینئر ایڈووکیٹ رویندر کمار رئیس زاد رضوی کے لئے پیش ہوئے تھے۔رضوی نے اپنی درخواست میں الزام لگایا کہ قرآن کی کچھ آیات ملک کی خودمختاری ، اتحاد اور سالمیت کے لئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے عدالت سے ان آیات کو غیر آئینی ، غیر مؤثر اور غیر عملی قرار دینے کے لئے کی درخواست کی تھی ۔اس سے قبل قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) نے رضوی کو ایک نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ قرآن کے آیات سے متعلق اپنے تاثرات کو واپس لے۔

قرآن مجید کی بعض آیات کو حذف کرنے کے بارے میں رضوی  کی طرف سے میڈیا میں دیئے گئے تبصرےسے ایک خاص برادری کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے اور اس کی توہین کرنے کے ارادے سے ، انتہائی اشتعال انگیز ، قابل اعتراض اور مذموم ، امن اور ہم آہنگی کی بحالی کا تعصب ہے خاص طور پر مذہب اسلام کے خلاف ہے  ۔ ان خیالات کا اظہار این سی ایم کے ذریعہ جاری کردہ ایک نوٹس میں کہا گیا ہے۔ ملعون رضوی کی اس حرکت پر عالم اسلام میں پہلے ہی غصہ پایاجاتا تھا اور جب اس نے سپریم کورٹ سے ان آیات کو حذف کرنے کی درخواست کو تو ہندوستان کے مسلمانوں میں غصہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا ۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ اور سوشل میڈیا پر رد عمل

وسیم رضوی کی سپریم کورٹ میں ہونے والی شرمناک شکست کے بعد جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ ملعون کی نہ صرف درخواست مسترد کردی گئی بلکہ اس پر 50 ہزار کا جرمانہ بھی عاید کیا گیا ہے تو سوشل میڈیا پر اس فیصلے کے متعلق رد عمل کا ایک طوفان امڈ پڑا ۔کئی افراد نے اس فیصلے کو ہندوستان میں قانون کی بالادستی اور جمہوریت کی کامیابی کے تناظر میں ایک بہتر فیصلہ قراردیا ہے ۔کئی صارفین نے اس نہ صرف مسلمانوں کے لئے اطمینان دلانے والا فیصلے قرار دیا بلکہ اسے ہندوستانی ماحول اور قومی یکجہتی کے تناظر میں قانون اور جمہوریت کی جیت قراردیا ہے ۔