Monday, April 29, 2024
Homeتازہ ترین خبریںلوک سبھا انتخابات کی تواریخ کا اعلان ہوتے ہی انتخابی سرگرمیاں تیز،بی...

لوک سبھا انتخابات کی تواریخ کا اعلان ہوتے ہی انتخابی سرگرمیاں تیز،بی جے پی ہے اپنی کامیابی کا یقین،

- Advertisement -
- Advertisement -

کافی دنوں سے ملک کے عوام،اور سیاسی پارٹیوں کو عام لوک سبھا انتخابات کا انتظار تھا۔اس کے لئے ملک کی سبھی سیاسی جماعتوں نے تیاریاں بھی شروع کر دی تھیں اورانتخابی مہم کا آغاز بھی کر دیا تھا۔اور ایسے قیاس لگائے جا رہے تھے کہ ماہ اپریل یا مئی میں عام انتخابات منعقد ہوسکتے ہیں۔اُنہی اندیشوں کے بیچ الیکشن کمیشن سنیل ارورہ نے سترہویں لوک سبھا انتخابات کی تواریخ اور انتخابی شیڈول کا اعلان کیا۔

لوک سبھا انتخابات کا 11اپریل سے آغاز ہوگا۔اور پولنگ گیارہ اپریل سے 19مئی کے درمیان ،جملہ 7مرحلوں میں ہوگی۔پہلا مرحلہ11 اپریل ،دوسرا مرحلہ 18اپریل ،تیسرا مرحلہ 23اپریل ،چوتھا مرحلہ 29اپریل،پانچواں 6مئی ،چھٹواں 12مئی اور ساتواں مرحلہ 19مئی کو ہوگا۔اور تمام مرحلوں کے ووٹوں کی گنتی 23مئی کی جائے گی۔

11 اپریل کو پہلے مرحلہ میں 91نشستوں کے لئے 20ریاستوں مثلاانڈومان نکوبار،آندھرا پردیش ،ارونا چل پردیش،آسام ،بہار،چھتیس گڑھ ۔جموں و کشمیر،لکشادیپ ،مہاراشٹرا،منی پور،میگھالیہ ،میزورم ،ناگالینڈ،اڑیسہ ،سکم ،تلنگانہ ،تریپورہ،اترپردیش ،اتراکھنڈ،اور مغربی بنگال میں پولنگ ہوگی ۔*۔18اپریل کو دوسرے مرحلہ میں 97نشستوں کیلئے 13ریاستوں مثلاآسام ،بہار،چھتیس گڑھ،جموں و کشمیر،کرناٹک ،مہاراشٹرا،منی پور،اڑیسہ،پانڈیچری،ٹاملناڈو،تریپورہ،اتر پردیش،مغربی بنگال میں پولنگ ہوگی۔*۔23 اپریل کو تیسرے مرحلہ میں115نشستوں کے لئے آسام ،بہار،چھتیس گڑھ،دادرا اور نگر حویلی،دمن اور دیو،گوا،گجرات،جموں و کشمیر،کرناٹک،کیرالہ،مہاراشٹرا،اڑیسہ،اتر پردیش،مغربی بنگال میں پولنگ ہوگی۔*۔29اپریل کو چوتھے مرحلہ میں 71نشستوں کے لئے 9ریاستوں مثلابہار ،جموں و کشمیر،جھارکھنڈ ،مدھیہ پردیش ،مہا راشٹرا،اڑیسہ،راجستھان ،اترپردیش،اور مغربی بنگال میں پولنگ ہوگی۔*۔6مئی کو پانچویں مرحلہ میں 51نشستوں کے لئے سات ریاستوں مثلابہار،جموں و کشمیر،جھارکھنڈ،مدھیہ پردیش،اتر پردیش،اور مغربی بنگال میں پولنگ ہوگی۔*۔12 مئی کو چھٹویں مرحلہ میں 59نشستوں کے لئے سات ریاستوں ،مثلا بہار ،دہلی ہریانہ،جھارکھنڈ،مدھیہ پردیش،اتر پردیش اور مغربی بنگال میں پولنگ ہوگی۔*۔19مئی کو ساتویں مرحلہ میں 59نشستوں کے لئے 8ریاستوں ،مثلا بہار،چندی گڑھ،ہماچل پردیش،جھارکھنڈ،مدھیہ پردیش ،پنجاب ،اتر پردیش اور مغربی بنگال میں پولنگ ہو گی۔

اس کے ساتھ ہی آندھرا پردیش،اروناچل پردیش ،اوڈیشہ اور سکم میں ایک ساتھ اسمبلی انتخابات بھی منعقد ہوں گے۔تاہم جموں و کشمیراسمبلی کے لئے جسے بی جے پی اور پی ڈی پی کے درمیان اتحاد ٹوٹنے کے بعد تحلیل کر دیا گیا تھا،ان لوک سبھا انتخابات کے ساتھ پولنگ نہیں ہوگی۔الیکشن کمشنر سنیل ارورہ کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابی ضابطہ اخلاق نا فذ ہو گیا ہے۔

ایک طرف جہاں ملک بھر میں سات مرحلوں میں پولنگ ہوگی ،وہیں ریاست مغربی بنگال میں ہی سات مرحلوں میں پولنگ منعقد ہوگی ۔

اس بار کے لوک سبھا انتخابات کس طرح منعقد ہوں گے ،اور اس کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی اس تعلق سے الیکشن کمشنر سنیل ارورہ نے تفصیل سے بتایا ۔ الیکشن کمشنر نے کہا کہ اس بار انتخابات میں 10 لاکھ پولنگ اسٹیشنس قائم کئے جائیں گے۔جبکہ 2014کے انتخابات میں 9لاکھ پولنگ اسٹیشنس قائم کئے گئے تھے۔اور ملک بھر کی جملہ 543لوک سبھا نشستوں کے لئے تقریباً90کروڑ رائے دہندے ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے اور اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔انہوں نے کہا کہ سوشیل میڈیا پر تمام سیاسی اشتہارات کی قبل از وقت تصدیق لینی ہوگی۔سنیل ارورہ کے مطابق پچھلے انتخابات کے مقابلے 8کروڑ 34ؒ ٓؒ ٓلاکھ نئے ووٹر بنے ہیں جن میں دیڑھ کروڑ 18سے 19سال کی عمر کے ہیں۔

پچھلی بار 9مرحلوں میں انتخابات ہوئے تھے۔جو 7اپریل کو شروع ہوکر 9مئی کو اختتام ہوئے تھے۔لیکن اس بار 7مراحل میں انتخابات کا عمل مکمل کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اُس وقت ووٹوں کی گنتی 16مئی کو ہوئی تھی۔اس بار سبھی پولنگ مراکز پر وی وی پیاٹ کا استعمال کیا جائے گا ۔جملہ 23لاکھ سے زیادہ ای وی ایم مشینیں ،اور 17لاکھ سے زیادہ وی وی پیاٹ استعمال کئے جائیں گے ۔اور ای وی ایم مشینوں پر اُمیدواروں کے انتخابی نشان اور نام کے ساتھ ان کی تصویریں بھی ہوں گی،تاکہ رائے دہندوں کو سہولت ہو ۔اس بار سوشیل میڈیا کے ذریعہ انتخابی تشہیری مہم کو ضابطہ اخلاق کے دائرے میں لایا گیا ہے۔سوشیل میڈیا پر اشتہار کا مواد ڈالنے سے پہلے سرٹیفکیشن لازمی قرار دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی شکایت کے لئے ایک اینڈرائڈ موبائل ایپ بھی جاری کیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے سات مراحل میں انتخابات کے اعلان کے بعد سیاسی جماعتوں نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنی اپنی پارٹی کی کامیابی کی اُمید ظاہر کی اور مخالف جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

حکمراں اتحاد نے اُسے دوبارہ منتخب کرنے پر زور دیا۔جبکہ مخالف جماعتوں نے این ڈی اے حکومت کو بے دخل کرنے کا یقین ظاہر کیا ۔صدر بی جے پی امیت شاہ نے اپنی پارٹی کے لئے عوام کی تائید مانگتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے پہلی معیاد میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جرائت مندانہ فیصلے کئے اور اپنی دوسری معیاد میں وہ ایک بڑی چھلانگ کو یقینی بنائے گی ۔تاکہ سب خوشحال ہو سکیں۔سینئیر کانگریس لیڈر اھمد پٹغیل نے دعویٰ کیا کہ آنے والے انتخابات پانچ سال کی بدامنی اور تباہی کے خاتمہ اور ایک نئے دور کی شروعات کے نقیب ہوں گے۔بی ایس پی سپریمو مایا وتی نے حکومت کو عوام دشمن اور سرمایا کاردوست قرار دیا۔نریندر مودی نے اپنے ٹویٹ میں اپنی حکومت کی کارکردگی کا تقابل کانگریس زیر قیادت یوپی اے حکومت سے کیا اور کہا کہ پچھلے پانچ سال یہ بتاتے ہیں کہ جسے نا ممکن سمجھا جاتا تھا اب وہ ممکن ہو گیا ہے۔کانگریس صدر راہل گاندھی نے ٹویٹر پر لکھا کہ بگل بج چکا ہے۔اب عوام کی باری ہے ۔ہم حکومت کے جھوٹوں کو شکست دیں گے۔اور فتح ہماری ہوگی۔عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ نریندر مودی حکومت کو اکھاڑ پھینکا جائے ،جو ہندوستان کی تاریک کی سب سے زیادہ آمرانہ اور وفاقیت دشمن ہے۔

اب تو انتخابی بگل بج چکا ہے ۔سیاسی جماعتوں کے درمیان اور بھی نوک جھونک ہوں گی ۔تنقیدوں کا بازار گرم ہوگا ۔اوہ ہرسیاسی جماعت اپنی پارٹی کی کامیابی کا دعویٰ کریگی۔انتخابی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ساتھ ہی یہ پیش قیاسیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ کو ن کتنی نشستوں پر کامیاب ہوگا ۔اور کس کی حکومت بننے کے امکانات ہیں۔

حکمراں اتحاد این ڈی اے کم ووٹنگ فیصد کے ساتھ اکثریت حاصل کرے گی ۔مگر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی۔اگر اتر پردیش میں مہا گٹھ بندھن نہیں ہو تا ہے تو نریندر مودی 300لوک سبھا نشستوں پر کامیاب ہوسکتے ہیں۔مختلف ریاستوں میں سی ووٹرس سے IANSکی جانب سے کرا ئے گئے اوپینین پولس کے مطابق لوک سبھا انتخابات میں بڑا ہی کڑا مقابلہ ہونے کے امکانات ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے ماہ مارچ میں کشمیر کے پلوامہ میں ہوئے جیش محمدکی جانب سے کئے گئے حملہ کے بعد پاکستان کو منہ توڑ جواب دیکر اپنے لئے عوامی ہمدردی کے نئے راستے بنا لئے ہیں۔ پلوامہ حملہ کے بعد مودی حکومت کے اقدامات کے بعدعوامی رائے کو دیکھتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی پر اُمید ہے کہ ان انتخابات میں نریندر مودی آگے نکل جائیں گے۔
اوپنین پول کے مطابق این ڈی اے کو 264نشستیں حاصل ہوں گی ۔جبکہ یو پی اے کو 141نشستیں اوردیگر پارٹیوں کو 138نشستیں حاصل ہوں گی۔اگر اتر پردیش میں مہا گٹھ بندھن نہیں بنتا ہے تو این ڈی اے 307نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔اور یو پی کو مل سکتی ہیں 139۔اور دیگر پارٹیوں کو مل سکتے ہیں 97نشستیں۔*۔بی جے پی کو خود کے دم پر 220نشستیں حاصل ہو سکتی ہیں۔اور اس کی دیگر اتحادی جماعتوں کو 44نشستیں ملیں گی۔*۔اگر این ڈی اے علاقائی پارٹیوں مثلا وائی ایس آر کانگریس،میزو نیشنل فرنٹ(ایم این ایف)،بیجو جنتا دل( بی جے ڈی)،اورتلنگانہ راشٹریہ سمیتی(ٹی آر ایس)،سے اتحاد کرتی ہے تو اُسے 301نشستیں حاصل ہو سکتی ہیں۔اُسی طرح یو پی اے کی بات کریں تو کانگریس کو 86اور دیگر اتحادی پارٹیوں کو 55نشستیں ملیں گی۔اگر یو پی اے دوسری پارٹیو ں جیسے کہ آل اندیا ڈیمو کریٹک فرنٹ(AIUDF)،لیفٹ ڈیمو کریٹک فرنٹ(LDF)،مہا گٹھ بندھن یو پی،ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی)،سے اتحاد کرتا ہے تو اُسے 226نشستیں حاصل ہوں گی۔

اتر پردیش میں بی جے پی کی 71سیٹیں ہیں ۔مہا گٹھ بندھن کے مقابلہ میں اُسے اس بار 29سیٹیں ملنے کے امکانات ہیں۔
بی جے پی بہار میں 36سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں ۔جبکہ 2014میں 22ملی تھیں۔گجرات میں 24سیٹیں مل سکتی ہیں جو پچھلے سے دو کم ہیں۔کرناٹک میں 16مل سکتی ہیں جو پچھلے کے مقابلہ میں ایک کم ہے۔مدھیہ پردیش میں 24،مہاراشٹرا میں 36نشستیں ملیں گی پچھلی بار 23پر کامیابی ملی تھی ۔اوڈیسہ میں 12،اور راجستھان میں20نشستیں ملیں گی۔اُسی طرح کانگریس پارٹی 2014 کے مقابلہ میں اس بار زیادہ سیٹیں حاصل کرے گی۔آسام میں 7نشستیں جو پچھلی بار سے تین زیادہ ہیں ۔چھتیس گڑھ سے 5 پہلے ایک تھی۔کیرالہ سے 14،کرناٹک سے پچھلی بار کی طرح ہی 9نشستیں ملیں گی۔جھارکھنڈ سے پانچ،مدھیہ پردیش سے پانچ،مہاراشٹرا سے 7جو پچھلی بار سے تین زیادہ ہے۔پنجاب سے 12جو پچھلی بار تین تھے۔راجستھان سے پانچ،اور تمل ناڈو سے 4نشستیں ملیں گی جو پچھلی بار صفر پر تھی۔اتر پردیش سے چار جو پہلے کے مقابلہ میں دو زیادہ ہے۔

یہ توصرف ایک عوامی خیال یعنی اوپینین پول ہے۔انتخابات کے بعد کس کو اکثریت حاصل ہوتی ہے ،کون اقتدار کی کرسی پر فائز ہوتا ہے۔اور کس کی ہار ہوتی ہے ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔یہ عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جسے چاہیں اقتدار سونپ سکتے ہیں اور جسے چاہیں اقتدار سے بے دخل کر سکتے ہیں۔