Friday, May 17, 2024
Homeٹرینڈنگمحفوضہ خاتون  بی جے پی کی مسلم مخالف شناخت بدلنے کےلئے پرعزم

محفوضہ خاتون  بی جے پی کی مسلم مخالف شناخت بدلنے کےلئے پرعزم

- Advertisement -
- Advertisement -

کولکتہ  ۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) کومسلم مخالف جماعت ہی کہا جاتا ہے حالانکہ بی جے پی میں کئی نام و نہاد مسلم قائدین  موجود ہیں جو بظاہر خود کو اقلیتی طبقے کے نمائندوں کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنیادی طور پر اسلام سے ان کی وابستگی پر ہمیشہ ہی سوالیہ نشان لگا رہا ہے ۔بظاہر مسلم نام رکھنے کے ساتھ مرکزی کابینہ میں کئی ایسے قائدین موجود ہیں جو خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر خود کو بی جے پی کے جھنڈے تلے پیش ہیں۔

 ہندوستان کے پارلیمانی انتخاب 2019 میں ابتدائی مراحل کی رائے دہی مکمل ہو چکی ہے اور بی جے پی نے 2014 میں بڑے بڑے وعدے کیے تھے اس کے پورے نہ ہونے کے بعد اس مرتبہ اپنی اقتدار کی کرسی باقی رکھنے کے لیے کئی ایک ہتھکنڈے اختیار کیے ہیں جس میں ایسے مسلم سیاسی قائدین کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر کیا جائے کہ بی جے پی صرف ہندوؤں کی جماعت نہیں بلکہ وہ ایک سیکولر جماعت ہے اور مسلمانوں کو بھی وہ اپنے خیمے میں خیر مقدم کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال میں دو مسلم بی جے پی کے امیدواروں جن میں ایک خاتون  بھی  شامل ہیں ،کو اپنی کامیابی کی امید ہے حالانکہ یہ دو امیدوار سابق میں کانگریس ، ترنمول کانگریس ،سی پی آئی (ایم) اور سماج وادی پارٹی میں بھی شامل رہی ہیں۔

مغربی بنگال کے انتخابات کےلئے بی جے پی میں دو مسلم امیدوار ہمایوں خیراورمفوضہ خاتون شامل ہیں جو کہ نہ صرف بی جے پی کی مخالف مسلم جماعت کی شناخت کو ختم کرنے کا دعوی کررہے ہیں بلکہ انہیں امید ہے کہ عوام انہیں اپنے حلقے سے کامیاب بنائیں گی۔ہمایوں کبیر مشیرآباد لوگ سبھا نشست سے بی جے پی کی امیدوار ہیں جبکہ محفوضہ خاتون جانگی پور سے انتخابات لڑ رہی ہیں ۔ہمایوں  ترنمول کانگریس کی سابق وزیر بھی ہیں جبکہ محفوضہ خاتون سی پی آئی ایم کی رکن اسمبلی بھی رہ چکی ہیں ۔

جانگی پور اور مشیر آباد میں پارلیمانی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں رائے دہی مکمل ہو چکی ہے اور بی جے پی کے ٹکٹ پرمذکورہ نشستوں سے انتخابی میدان میں موجود ہمایوں ور محفوضہ خاتون کو اپنی کامیابی کی امید ہے کیونکہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران طلاق ثلاثہ کو اہم موضوع کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے مسلم خواتین کو بااختیار بنانے ،تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے علاوہ ان پر ہونے والے گھریلو تشدد جیسے مسائل کو انتخابی مہم کا حصہ بنایا ہے۔

بی جے پی نے حالانکہ حالیہ دنوں میں طلاق ثلاثہ پر ہندوستان بھر میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا اور اس نے پوری کوشش کی تھی کہ پارلیمنٹ میں قانون کو منظور کرواتے ہوئے طلاق ثلاثہ کو ایک ایسے قانون کے تحت لایا جائے جس پر عمل کرتے ہوئے مسلم خاندانوں اور خاص کر مردوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے جو کہ ایک ہی نشست میں اپنی زوجہ کو تین طلاق دیتے ہیں لیکن بی جے پی کی یہ سب سازشی کاوش ناکام رہیں ، لہذا مشیرآباد اور جانگی پور سے بی جے پی کی نمائندگی کرنے والے یہ دو امیدواروں کو پہلے ہی اندازہ ہو چکا تھا کہ اگر وہ طلاق ثلاثہ کا موضوع اٹھاتے تو انہیں ناصرف مسلم طبقے کی جانب سے قبول نہیں کیا جاتا بلکہ اقلیتی طبقے کا انہیں ایک بھی ووٹ نہیں ملتا ،لہذا انہوں نے انتخابی مہم کے دوران مسلم خواتین کو بنیادی مسائل کا جھانسہ دینے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی جس نے 2014 کے انتخابات میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نام پر ہندوستان کی بھولی بھالی عوام کو پہلے ہی دھوکا دے چکی ہے کیونکہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے جو ہتھکنڈے اختیار کیے تھے اور اس میں مذہب کے نام پر تفریق پھیلانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی حالانکہ اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کے در پردہ زعفرانی جماعتوں کے یہی مقاصد تھے لیکن انہوں نے سیکولر اور ترقی کا جھوٹا نقاب چہروں پر ڈال کر ہندوستانی عوام کو دھوکہ دیا ہے اور اسی کی ایک اور کوشش مغربی بنگال کی ان دو لوک سبھا نشستوں پر مسلم امیدواروں کی جانب سے کی جا رہی ہے اور یہاں طلاق ثلاثہ کے برعکس مسلم خواتین کو بااختیار بنانے انہیں تعلیم یافتہ بنانے کے علاوہ گھریلو تشدد سے چھٹکارا دلانے کے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔

محفوضہ خاتون جنہوں نے 2017 میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے ان کا ماننا ہے کہ وہ اپنے لوک سبھا حلقہ سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے سب سے پہلے بی جے پی کی مخالف مسلم شناخت کو ختم کریں گے اور انہیں پوری امید ہے کہ جس طرح اس حلقے کی عوام نے بی جے پی میں ان کی شمولیت کا خیر مقدم کیا ہے اسی طرح وہ اپنی حمایت دیتے ہوئے انہیں پارلیمنٹ میں بھی پہنچائیں گے۔ محفوضہ خاتون نے اپوزیشن جماعتوں خاص کر کانگریس اور ترنمول کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ گزشتہ 70 برسوں میں ان جماعتوں نے خود کو سیکولر جماعتوں اور مسلمانوں کی ہمدرد جماعتوں کے طور پر خود کو پیش کیا ہے لیکن انہوں نے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا ہے ،جبکہ بی جے پی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ مخالف مسلم جماعت ہے حالانکہ بی جے پی میں اس وقت کئی مسلم قائدین مختلف لوگ سبھا حلقوں سے اپنی دعویداری پیش کر رہے ہیں۔

مغربی بنگال کے انتخابات میں مسلم رائے دہندوں کا بادشاہ گرموقوف ہوتا ہے کیونکہ بنگال کی جملہ آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 30 فیصد ہے جبکہ جانگی پور لوک سبھا نشست میں جملہ رائے دہندگان میں 58 فیصد مسلم ووٹرز ہیں  ۔مشیر آباد لوک سبھا نشست پر 50 فیصد سے زائد مسلم ووٹرز موجود ہیں۔ بی جے پی جس نے مغربی بنگال میں اپنے 42 امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے ان میں ہمایوں کبیر اور محفوضہ خاتون واحد مسلم امیدوار ہیں لیکن بی جے پی کو امید ہے کہ جہاں 12 سے 15 لوک سبھا نشستوں پر اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کلیدی رول ادا کریں گے اور یہ ووٹ بی جے پی کے حق میں آ سکتے ہیں ۔بہرکیف بی جے پی جو سیکولر نقاب اوڑھ کر مغربی بنگال میں اقلیتی طبقوں اور خاص کر مسلم رائے دہندگان کو لبھانے کی کوشش کر رہی ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پائے گی کیونکہ قومی سطح پر اس نے گذشتہ انتخابات میں جو وعدے کئے تھے وہ وعدے صرف سبز باغ ہی ثابت ہوئے ہیں تو پھر کس طرح دودھ کا جلا چھانچ بغیر پھونکے پیئے گا؟