Friday, June 14, 2024
Homesliderمخالف رجحان،ٹی آر ایس کےلئے سب سے بڑا چیلنج

مخالف رجحان،ٹی آر ایس کےلئے سب سے بڑا چیلنج

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ دوباک اسمبلی ضمنی انتخاب اور جی ایچ ایم سی انتخابات کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جون 2014 سے ٹی آر ایس کے خلاف ایک مخالف رجحان کا عنصر کام کررہا ہے ٹی آر ایس جو گذشتہ ساڑھے چھ سال سے تلنگانہ پر حکمرانی کررہی ہے اسے اب عوام کے ایک مخالف رجحان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ٹی آر ایس ذرائع کے مطابق پارٹی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ مخالف رجحان ہے اور اب پارٹی کی ساری توجہ اس جانب مبذول ہوچکی ہے کہ اس مخالف رجحان کے عنصر کو کیسے شکست دی جائے؟ کیونکہ یہ عنصر ٹی آر ایس کے صدر اور چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے لئے بھی پریشانی کا باعث بن گیا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جی ایچ ایم سی میں ٹی آر ایس کی تعداد 2016 میں 99 نشستوں سے گھٹ کر صرف 55 نشستوں پر آگئی ہے۔

سرکاری خزانے سے 60،000 کروڑ روپے سے زائد نقد اسکیموں اور لوگوں کے بہت سارے طبقوں کو فلاحی اسکیموں پر خرچ کرنے کے باوجود رائے دہندوں نے نے ٹی آر ایس کو حمایت نہیں کی۔ یہ وہ عنصر ہے جسے پارٹی قیادت سمجھنے میں ناکام ہے۔ ٹی آر ایس حلقے اس پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا مخالف رجحان ٹی آر ایس حکومت کی ناقص کارکردگی یاکے سی آر کے کام کرنے کے انداز کی وجہ سے ہے جو لوگوں کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندوں کے لئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے ۔
یادر ہے کہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے وقت اپنی ریاست کی قیام کےلئے عوام میں جو جذباتی شدت تھی جس نے ٹی آر ایس کا دل و جان سے ساتھ دیا تھا اب وہ احساسات ختم ہوچکے ہیں ۔ٹی آر ایس اب عوام کو تلنگانہ کا جذباتی نعرہ بھی نہیں دے سکتی او ر نہ ہی ان کے اپنی ریاست کے جذبات کے ساتھ ووٹ حاصل کرسکتی ہے لہذا اب عوام کا مخالف رجحان ٹی آر ایس کےلئے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔