Thursday, May 16, 2024
Homeدیگرنقطۂ نظرمسلم امہ اور اسلامی کردار

مسلم امہ اور اسلامی کردار

- Advertisement -
- Advertisement -

چنگیزیوں نے جب مسلم مملکت کو تباہ و تاراج کردیا تو مغلوب قوم کی حسین و جمیل دوشیزاؤں اور خوبصورت خواتین کو زبردستی اٹھاکر اپنے حرم میں شامل کرلیا۔ کسی نے کسی دوشیزہ کو اپنی بیوی بنالیا تو کسی نے اپنی کنیز ۔ چنگیزیوں کے عروج کے بعد دنیا یہی سمجھ رہی تھی کہ اسلام اب پھر سے نہیں ابھر پائے گامگرمنگولوں کی دوسری تیسری نسل ہی دولت ایمانی سے سرشار ہوگئی۔ اس عظیم تبدیلی کے پس پردہ کسی مبلغ اسلام یا عالم دین کی محنتیں کارفرمانہیں تھیں بلکہ یہ خاموش انقلاب برپا کرنے والی وہ نازک اندام ہستیاں تھیں جنہوں نے اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا عزم رکھنے والی قوم کے بچوں کی پرورش کی تھی۔تاریخ کے صفحات میں گم ان عظیم خواتین نے خود کو حالات کے سپرد نہیں کیا اور نہ ہی منگولوں کی عیاشیوں ور نگ رلیوں میں خود کو غرق کیا۔ ان دختران ملت نے بڑے ہی صبر و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنے ایمان کی حفاظت کی تھی بلکہ منگولوں کے نطفہ کی اپنے بطن میں پرورش کی اور ان سے پیدا ہونے والی اولادکو اپنی گود میں ایسی تربیت دی کہ یہ جب جوان ہوئے تو اسلام کا عملی پیکر تھے ۔ مقتدر گھرانوں کے ان جوانوں کے اپنے مومن ہونے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی ساری کی ساری منگول قوم مشرف بہ اسلام ہوتی چلی گئی ۔ آج ہم ایسی مائیں کہاں سے لائیں کہ جن کی گودمیں پرورش پارہی نئی نسل سے یہ توقع رکھی جائے کہ ان کے اخلاق و کردار سے لوگ دامن اسلام میں پناہ حاصل کرنے لگیں گے ۔ملت اسلامیہ میں دین سے بڑھتی بے رغبتی اور گناہوں کی طرف مائل رجحان کے نتیجہ میں آج ایسے ایسے واقعات رونما ہونے لگے ہیں کہ اغیار ہم پر طعنے کسنے لگے ہیں۔ ایک دور تھا کہ مسلمانوں کے کردارو اخلاق سے متاثر ہوکر مشرکین دامن حق کو تھام لیا کرتے تھے ۔خیر امت کا لقب پانے والی امت ہی آج اصلاح و تربیت کی محتاج ہوگئی ہے۔ آج کا ماحول بالکل متضاد ہوگیاہے۔دہوں بلکہ صدیوں سے چلی آرہی ہماری دین بیزارگی نتیجہ ہے کہ آج ملت اسلامیہ وجہ عبرت بن کر رہ گئی ہے۔ہم ان حالات کے خاموش شاہد بن کر رہ گئے ہیں کہ بنت حرم اپنی پسندسے غیر مسلموں کا ہاتھ تھام رہی ہیں۔ اپنی پسند کے نوجوان کو اپنا شریک سفر بنانے کے لئے حق کا دامن چھوڑ کر باطل عقائدکو اپنا نے میں فخرمحسوس کرنے لگی ہیں۔ خواتین نہ صرف خود بردہ فروشی کے دھندے میں ملوث ہورہی ہیں بلکہ نوجوان لڑکیوں کو اس میں ٹھونس رہی ہیں ۔ خاندان کی کفالت کے لئے سود پر حاصل قرض چکانے کے لئے ایک دختر کو اپنی عصمت گروی رکھنا پڑتاہے تو کسی کو اپنی یا اپنوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لئے اپنی حرمت کا سودا کرنے پر مجبور ہونا پڑتاہے۔ کہیں خواتین گھر خالی کروانے اپنی پڑوسن پر کیروسین چھڑک کر آگ لگا دیتی ہیں کہ وہ دواخانہ میں تڑپ تڑپ کر اپنی جان ہی دے دیتی ہے توکہیں چند ٹکوں کی خاطر اپنی بیٹیوں کوان سے چارگنا زائد عمر کے شیخوں کو تھمادیا جاتا ہے ۔نام نہاد ترقی یافتہ مسلم گھرانوں کا یہ ماحول بن گیا ہے کہ جوان لڑکیاں ‘اپنے گھر میں ویک اینڈ پارٹیوں کی میزبانی کرنے لگی ہیں جس میں ان کے ساتھی جن میں ذکور واناث دونوں شامل ہوتے ہیں‘ ڈی جے پر ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالے ڈولتے رہتے ہیں اوربے غیرت ماں باپ اپنے بچوں کی خوشی کی خاطر نہ صرف یہ سب کچھ برداشت کرنے لگے ہیں بلکہ ان پارٹیوں کی تیاریوں میں بڑی ہی تن دہی کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ پھر جب یہی لڑکے لڑکیاں اپنی پسند سے اپنے شریک زندگی کا انتخاب کرلیتے ہیں یا پھر گھر سے بھاگ کر مندر یا گرجا گھر جاکر رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں تو ہم افسوس کرنے لگتے ہیں۔ دو ماہ بھی نہیں گذرے کہ ایک سود خور اپنی ہوس مٹانے کے لئے مقروض خاندان کی لڑکی کو مجبور کرتاہے ۔ شائد حقائق کچھ ہو ں مگر جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کی رو سے جب وہ لڑکی اپنے گھر والوں کے قرض کو چکانے اپنی امنگوں کی قربانی دینے تیار ہوجاتی ہے اور قرض دہندہ کو اپنی زندگی سونپ دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے تو اس سے صرف ناجائز تعلقات قائم کرنے کے لئے اصرار کیا جاتاہے ۔ اس مجبور لڑکی کو چارمینا ر طلب کرتے ہوئے ایک بار پھر وہ سود خور اپنی خواہش کا اظہار کرتاہے اور دونوں میں کسی بات پر جھگڑا ہوجاتاہے تو اسے نیچے دھکیل دیا جاتاہے۔ کل ہی وہ خاتون تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دی جسے پڑوسیوں نے گھر خالی کرنے پر مجبور کرنے کے لئے مٹی کا تیل چھڑک کر زندہ جلانے کوشش کی تھی ۔ ہمارا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ ایسے واقعات پر ہم کچھ دنوں تک افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور زمانہ کو گالی دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض نبھادیا ہے۔ جو حالات ایسے قبیح افعال کا موجب بن رہے ہیں ان کے تدارک کے لئے ہم کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔آخر ہم میں اتنی مادہ پرستی کیوں بڑھ گئی؟شائد اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایک عرصہ سے برصغیر ہند میں ملت اسلامیہ اپنے اصل مبداء سے ہٹ گئی ہے اور دنیاوی معاملت میں اس قدر کھوگئی ہے کہ اسے خود اپنا مقصد حیات یاد نہیں رہا۔ملت اسلامیہ میں بڑھتی لادینی اور مادہ پرستی کا یہ حال ہے کہ اولاد کی تربیت پر اب توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے۔ایک دور تھا کہ ہماری مائیں اپنے بطن میں پرورش پارہی اولاد کے صالح اور نیک بخت ہونے کے لئے دوران حمل اذکار و عبادات میں اپنا وقت زیادہ لگاتی تھیں ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ جب بنگال کے دورہ پر نکلے تو آپ کے ہاتھ پر سات لاکھ ہندو ؤں نے اسلام قبول کیا اور ستر لاکھ مسلمانوں نے بیعت توبہ کی ۔ جب آپ گھر واپس آئے تو خوشی کی وجہ سے چہرے پر رعنائی تھی ۔ آپ نے اپنی والدہ کی قدم بوسی کی ۔ ماں نے پوچھا ‘ بیٹے!کیا بات ہے کہ آج بڑے خوش نظر آرہے ہو؟انہوں نے فرمایا ‘امی !اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سعادت بخشی کہ لاکھوں انسانوں نے میرے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ ماں نے یہ سن کر فرمایا ‘بیٹا یہ تیرا کمال نہیں‘ یہ تو میرا کمال ہے۔ حضرت خواجہ اجمیری کہنے لگے ‘ امی! آپ نے سچ فرمایا ہے‘مگر اس کی کچھ تفصیل تو ارشاد فرمادیجئے۔ماں نے کہا‘بیٹاجب تم چھوٹے تھے ‘ میں نے تمہیں کبھی بھی بے وضوددودھ نہیں پلایاتھا‘ یہ اس کی برکت ہے کہ اللہ نے تمہارے ہاتھوں پر لاکھوں انسانوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطافرمادی ۔کاش کہ آج ہماری مائیں بھی ایسی ہی عادت ڈال لیتیں۔ اب یہ حال ہے کہ ہماری زچائیں دن بھر یاتو غیبت کرنے میں اپنا وقت ضائع کرتی ہیں یا پھر ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے واہیات فیملی سیرئیلس کا نظارہ کرتے ہوئے دن ٹال دیتی ہیں۔ایسی ماؤں کی گودوں میں پرورش پانے والی اولاد سے کیا توقع رکھی جاسکتی کہ وہ بڑے ہوکر اسلام کے مجاہد بنیں گے؟ مولانا آزاد نے سچ ہی کہا تھا کہ ماں کے سینہ سے چمٹ کر بچہ جب دودھ پیتا ہے تو وہ صرف دودھ ہی نہیں پیتا بلکہ ماں کی فطرت بھی اخذ کرلیتاہے ۔ جب ہماری تربیت میں ہی بگاڑ پیدا ہوجائے تو یہ کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ ملت اسلامیہ خیر امت کے منصب کو نبھاپائے گی۔ آج تو یہ فیشن بن گیاہے کہ خواتین کو اپنی اولاد کو صالح بنانے سے زیادہ فکر اپنی عمر کے ڈھل جانے کی ہوتی ہے ‘ اسی لئے بہت سی مائیں تو اپنے بچوں کو دددھ ہی نہیں پلاتیں۔ یہ تو بگاڑ کی انفرادی کیفیات تھیں۔ انفرادی طور پر اخلاق و کردار کی پستی کی وجہ سے ایسے حالات پیش آرہے ہیں اور ہم اس جانب کچھ نہیں کرپارہے ہیں مگر اجتماعی طور پر خواص بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ ہر کوئی یہ اجتماعی ذمہ داری دوسروں کے کندھوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتاہے۔حالیہ چند دنوں میں پیش آئے مختلف نوعیت کے واقعات ہماری نیندیں حرام کردینے کے لئے کافی ہیں مگر ہم میں اتنی بے حسی بڑھ گئی ہے کہ سنگین سے سنگین واقعہ اور پستی اخلاق کا ہیچ سے ہیچ مظاہرہ ہمارے لئے بے چینی کا سبب نہیں بن رہاہے ۔ ہم دنیا داری میں اتنے کھوچکے ہیں کہ ہم ان احساسات سے بے نیاز ہوچکے ہیں جو ہمیں اجتماعی ذمہ داری یاد دلاتے ہیں۔ یوں تو ملت اسلامیہ میں پیدا شدہ بگاڑ کو دور کرنے کے لئے کچھ تنظیمیں میدان عمل میں آچکی ہیں مگر ان تنظیموں کا دائرہ کا ر اتنا تنگ اور وسائل اتنے محدود ہیں کہ وہ کچھ تبدیلی لانے سے قاصر ہیں۔علمائے کرام بھی اصلاح امت پر توجہ کم دینے لگے ہیں۔ ان کے مواعظ کے موضوعات بھی بدل گئے ہیں۔آخر ہمیں کب ہوش آئے گا؟ کب ہم خود کو بدلیں گے اوردنیا کو بدلنے والے بنیں گے؟ اب صرف اصلاح کی باتیں کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ امت میں بگاڑ کے اسباب و وجوہات کا پتہ چلاتے ہوئے ان کا حل تلاش کرنا ہوگا اور ایک منصوبہ بند انداز میں اقدام کرنا ہوگاورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم میں اور اغیار میں کوئی فرق باقی نہ رہے ۔