Friday, May 17, 2024
Homeدیگرنقطۂ نظرنئی سیاسی حکمت عملی کی ضرورت

نئی سیاسی حکمت عملی کی ضرورت

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

- Advertisement -
- Advertisement -

آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کا کام مشوروں اور اپنی اصابت رائے کے ذریعہ مولانا ابوالکلام آزاد نے کیا ، جمیعۃ العلماء ہند نے انجام دیا جس کی قیادت مولانا حفظ الرحمن اور مفتی عتیق الرحمن صاحب کے ہاتھ میں تھی یا کسی درجہ میں مسلم مجلس مشاورت نے انجام دیا جس کی قیادت ڈاکٹر سید محمود کے ہاتھ میں تھی بعد میں اس کی قیادت سید شہاب الدین کے ہاتھ میں آئی شمالی ہندوستان میںآل انڈیا مسلم مجلس نے سیاسی بیدار کا انجام دیا جس کی قیادت ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کے ہاتھ میں تھی ،کیرالہ میں مسلم لیگ اور حیدراباد میں مجلس اتحاد المسلمین فعال اور کار سازسیاسی جماعت رہی، بہار میں مولانا سجاد نے آزادی سے پہلے انڈپنڈنٹ بنائی تھی اس طرح مسلمانوں نے سیاسی شعور اور فکر کی بالیدگی کا ثبوت مختلف طریقوں سے دیا تقسیم کے بعد کے جانگسل واقعات کے بعد امت مسلمہ کچھ نہ کچھ حرکت میں ضرور رہی لیکن وہ ایک بگولے کی طرح مضطر بے چین اور برباد رہی وہ ہاتھ پیر مارتی رہی ، لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی نہیں رہی ، مذہبی میدان میں تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی سر گرم عمل رہی امارت شرعیہ بہار میں متحرک رہی، مسلم پرسنل لا ء بور ڈ شریعت کی حفاظت کے لئے مخالف طاقتوں کے سامنے سد سکندری بنا رہا ، خانقاہوں کا اور دینی مدارس اور دینی تعلیمی کونسل کا بھی رول رہا بحیثت مجموعی امت مسلمہ غافل اور بے حسی اور بے شعوری کا شکار نہیں رہی ۔اگر ملت کے افق پر کامیابی کاکوئی ستارہ روشن نہیں ہوا تو اس کی وجہ بے شعوری نہیں تھی بلکہ حالات کی سنگینی تھی ،مسلم دشمنی اور فرقہ پرستی کا عروج تھا، فساداست کی آگ میں مسلمانوں کو جھونکا جانا تھا اور تقسیم ملک کے بعدمصائب کے بادل کا امنڈ امنڈ کر چھا جانا تھا۔ انگریزں کی حکومت اور اس کے بعد کے دور میں مسلمانوں کی حیثیت ایک ملبہ کے ڈھیر کی ہو گئی تھی اور صورت حال میں اب تک کوئی بڑا فرق نہیں آیا ہے وہ جو کبھی خسروئے اقلیم ہندوستان تھے ان کی زبان تہذیب تمدن ہر چیز معرض خطر میں تھی حکومت کا چراغ پہلے ہی گل ہوچکا تھا معاشی طاقت بھی ختم ہوگئی تھی رنگا ناتھ مشرا کیشن اورسچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حیثیت دلتوں سے بھی بدتر ہو گئی ہے ،کمیٹی کی سفارشات پر بھی عمل اس لئے نہیں ہوسکا کہ مسلمانوں کیلئے کوئی مسلسل آواز بلند کرنے والا نہیں، عثمانیہ یونیورسیٹی پہلے ہی چھینی جاچکی اور اب مسلم یونیورسیٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جارحیت کی زد پر ہیں انکاونٹر اور بے جا گرفتاریوں اور دہشت گردی کے الزامات کا بھی مسلمانوں کوسامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس سے زیادہ بے عقلی کی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ’’ مسلمان ترقی کررہے ہیں‘‘۔ایسی بات اسی شخص کی زبان سے نکل سکتی ہے جو ذہنی اور فکری طور پر مفلس ہوگیا ہو یا غباوت کی کی بلندترین چوٹی پرفائز ہو۔ موجودہ افسوسناک صورت حال سے باہر نکلنے کے لئے اس ملک میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت بہت ضروری ہے اور یہ سیاسی طاقت کیسے حاصل ہو اس پر علماء اور قائدین اور دانشوروں کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔مسلمان سیاسی دانشوروں نے جانگسل حلات کا مقابلہ کرنے کے لئے کئی بار مسلم جماعتوں کا وفاق بنایا لیکن ابھی تک ان کی سرگرمیاں ان کے دفتروں تک محدود رہی ہیں اور ان کا کوئی وزن ملک میں محسوس نہیں کیاگیا اور مسلمانوں کا کوئی مسئلہ وہ حل نہیں کرسکیں اور ان کے وجود سے مسلمانوں کی سیاسی طاقت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، حالانکہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہی ان کے مسائل کاحل ہے اور مسلمانوں کے موجودہ تمام مسائل سیاست میں ان کی بے وزنی کی وجہ سے ہیں ، اس بے وزنی اور ہلکے پن کو ختم کرنے کے لیے مسلم جماعنوں کا ادغام اور انضمام نہیں بلکہ باہمی تعاون اور اشتراک ضروری ہے،اور خدمت خلق کے ذریعہ برادران وطن کی تالیف قلب بھی ضروری ہے قرآن وحدیث میں خدمت انسانیت اور نفع رسا نی خلق اور حسن اخلاق کے جتنے احکام اور فضائل ہیں اتنے بائبل میں بھی نہیں ہیں لیکن بائبل کے ماننے والے خدمت خلق کا جتنا کام کرتے ہیں قرآن وحدیث پر ایمان رکھنے والے اس کا عشر عشیر بھی نہیں کرتے ہیں،خدمت خلق کے ذریعہ سے برادران وطن کے دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں مسلمان کہیں پندرہ کہیں بیس اور کہیں تیس فی صد ہیں اگر یہ تعداد تعلیم میں اور معیشت میں طاقتور ہو اوربرادران وطن سے اس کے مضبوط تعلقات ہوں ، اس کی مناسب نمائندگی اسمیلی اور بپارلیمنٹ میں ہو تو اپنا سیاسی وزن منوا سکتی ہے، اس لیے مسلمانوں کا اصل ایجنڈا دینی اور اخلاقی تربیت وتعلیم کے سا تھ عصری تعلیم اور معیشت میں ترقی ہونا چاہیے اور پھر برادران وطن کے ساتھ روابط کے ذریعہ قانون ساز اداروں میں ان کی مناسب نمائندگی ہونا چاہئے ،مسلمانوں کو مصائب اور جانگسل حالات کے دلدل سے نکالنا بھی ایک دینی کام ہے اور اس کام کو دینی کام نہ سمجھنا فکر ونظر کی خامی ہے۔ افسوس ہے کہ ایسے خام فکر ونظر کے علماء موجود ہیں جو تعلیمی اور معاشی ترقی کو اور سیاست میں حصہ لینے کو دنیا داری کا کام سمجھتے ہیں ، یہ قصور اس ماحول کا ہے جس مین وہ رہتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں سیاسی طاقت کی دینی اہمیت سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔
مختلف قوموں اور نہذیبوں اورمذہبوں کے ملک میں مسلمان تن تنہا اپنی اس سیاسی طاقت کی تشکیل نہیں کرسکتے جو ان کو پارلیامنٹ اور اسمبلیوں اور قانون ساز اداروں تک پہونچائے اور شریک حکومت کرے ، اس کے لئے برادران وطن سے اور خاص طور پر دیگر اقلیتوں سے اور پسماندہ طبقات سے رابطہ استوار کرنا ضروری ہے تاریخ بتاتی ہے کہ سماج کے کزور طبقات ہمیشہ حق کو قبول کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ تعلقات کی یہ استوار ی مسلمانوں کی دینی اور دعوتی ضرورت بھی ہے اور سیاسی ضرورت بھی ہے ۔ صفا کی پہاڑی سے جب پیغمبر خدا نے آواز دی تھی تو قریش او مکہ کی سربرآوردہ لوگ جمع ہوگئے تھے اب وہ رابطہ ٹوٹ گیا ہے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کمیونیکیشن گیپ پیدا ہوگیا ہے ۔ پہلی فرصت میں اس حائل خلیج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تمام مسلم جماعتوں تنظیمو ں اور اداروں کو غیر مسلموں سے رابطہ کا ایک اہم شعبہ قائم کرنے کی ضرورت ہے ،اگر اس عظیم کام کا مقصد اسلام اور مسلمانوں سے برادران وطن کو قریب کرنا ہے اوران کے ضرورت مندوں کی خبر گیری کرنا ہے اور رفاہی کام انجام دینا ہے تو مؤلفۃ القلوب کی مد کی زکات کی رقم بھی اس پر خرچ کی جاسکتی ہے دینی ادارے زکاۃ کی رقم وصول کرتے ہیں اور اب بہت سے دارے بغیر تملیک کے حیلہ اور تکلف کے عمارتوں کی تعمیر پراور تنخواہوں پر بھی زکاۃ کی رقم خرچ کرنے لگے ہیں اس لئے زکاۃ کا کچھ حصہ مسلمانوں کو جارحیت سے بچانے اور سیاسی طاقت کی حصول پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے کیونکہ سیاسی طاقت کا حصول اور جارحیت کا دفاع برادران وطن کو قریب کئے بغیر ممکن نہیں ہے ۔قرآن میں زکاۃ کے مصارف میں مؤلفۃ القلوب کا ذکر آیا ہے یعنی تالیف قلب کے لئے بھی زکاۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے ، کسی کو غلط فہمی نہ ہوکہ ہم زکاۃ کو غیر مسلموں کو عمومی طور پر دینے کی حمایت کررہے ہیں لیکن زکاۃ کے مصارف میں مؤلف القلوب کی مد بھی شامل ہے جسے حضرت عمر نے یہ کہہ کر ختم کردیا تھا کہ اب اسلام کو عزت اور طاقت حاصل ہوگئی ہے اب اس کی ضرورت نہیں۔لیکن ظاہر ہے کہ اسلام کی بے کسی اور مسلمانوں کی بے بسی جب بھی دوبارہ واپس آئے گی تو لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے اورمسلمانوں کو اصحاب اقتدار کے شر سے بچانے کے لئےُ زکاۃ کی اس مد کا دوبارہ استعمال درست ہوگا اور اس مد کا استعمال انفرادی طور پر مسلمان نہ کریں بلکہ مسلمانوں کی جماعتوں کو یہ حق دیا جائے، یعنی جمیعۃ علماء، جماعت اسلامی امارت شرعیہ مسلم مجلس مشاورت اور ملی کونسل مسلم پرسنل لا بورڈ اور اتحاد المسلمن جیسے اداروں کویہ حق دیاجائے جو ہندو تنظیموں کے لیڈروں کو اور ہندووں کے سماجی قائدین کو اپنے یہاں مدعو کرسکیں اور ان سے رابطہ استوار کرسکیں، تبادلہ خیال کرسکیں ،مسلمانوں کی جماعتیں قابل قدر کام کرہی ہیں ۔ جھوٹے الزامات میں مسلمانوں کی گرفتاریاں ہوئیں ۔ جمعیتہ علماء نے کیس لڑکر بے قصور لوگون کو رہائی دلائی بلا شبہ یہ قابل قدر کام ہے لیکن جمیعۃ علماء کے پاس اس کا کیا منصوبہ ہے کہ سرے سے گرفتاریاں نہ ہوں اور پولیس کا ظلم نہ ہو اور فرقہ پرستی ختم ہو ۔راقم الحروف کے نزدیک یہ کام سیاسی طاقت حاصل کئے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور سیاسی طاقت کے لئے باہمی اتحاد کے ساتھ برادران وطن کے دلوں کو جیتنا اور مخالفوں کو بے اثر کرنا ضروری ہے اور میرے نزدیک اس کام کے لئے مؤلفۃ القلوب کی مد زکاۃ استعمال ہوسکتی ہے، یہ تجویز باشعورعلماء دین اور مفتیان شرع متین کے غور وتدبر کے لئے ہے کہ وہ اس پر غور کریں، اگربرادران وطن سے رابطہ کا کام دینی اداروں اور جماعتوں کے ذریعہ ہو تو ایمان اور اخلاق کی خوشبو بھی پھیلے گی اور پیام انسانیت کی تحریک کو بھی فروغ حاصل ہوگا اور لوگ اسلام کے اندر کشش بھی محسوس کریں گے اور مسلمانوں کے بارے میں اچھا تاثر بھی قائم ہوگا اور مسلمانوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں یا پیدا کی جارہی ہیں اس زہر کا تریاق مہیا کیا جاسکے گا اور مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور حاشیہ نشینی ختم کی جاسکے گی ۔مسلمانوں کی سیاسی طاقت کے لئے اور ان کے جائز مطالبات کی حمایت کے لئے ملک کے باشندوں کی ہم نوائی ضروری ہے ۔ مسلمان اگراپنی سیاسی پارٹی بنائیں تب بھی کامیابی اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ چار مینار اور اس کے چاروں اطراف مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے ،جہاں برادران وطن کے ووٹ کے بغیر بھی مسلمان الیکشن جیت سکتے ہیں۔ مسلم تنظیموں اور اداروں کو بدلے ہوئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم قانون ساز ادروں میں ایسے مسلمانوں کو پہونچائیں جو حق کے لئے آواز بلند کرسکیں اوررزرویشن اور اس جیسے دوسرے مسائل پر اپنی زبان کھول سکیں، خاموش تماشائی نہ رہیں ، موجودہ سنگین حالات میں مسلمانوں کی حکمت عملی کے یہ تین پہلو ہیں جن پر پوری توجہ کی ضرورت ہے۱۔نئی نسل کی دینی اور اخلاقی تربیت اور کردار سازی کی طرف توجہ ۲۔مسلمانوں کی تعلیم اور معیشت کی طرف توجہ برادران وطن سے تعلقات قائم کرنے کی طرف توجہ اور اس کام کے لئے بہتر منصوبہ بندی ۔