Friday, May 17, 2024
Homeہندنصف نصاب مکمل نہیں ہوا اور کشمیری طلبہ کو امتحانات کی فکر...

نصف نصاب مکمل نہیں ہوا اور کشمیری طلبہ کو امتحانات کی فکر ستانے لگی

- Advertisement -
- Advertisement -

سری نگر۔ وادی کشمیر میں قریب دو ماہ سے جاری نامساعد اور غیر یقینی صورتحال کے باعث جہاں شعبہ تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہیں اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے طلبہ سب سے زیادہ پریشان اور متفکر ہیں کیونکہ امتحانات قریب آرہے ہیں لیکن پڑھائی میں دل بھی نہیں لگتا ہے اور مقررہ نصاب کا نصف حصہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔

یاد رہے کہ انتظامیہ نے چند ہفتے قبل ہائی اسکول سطح تک کے اسکول کھولنے کا اعلان کیا تھا لیکن ان اسکولوں میں بچوں کی حاضری نہ ہونے کے برابر درج کی جارہی ہے۔ اس دوران صوبائی کمشنر کشمیر بصیر احمد خان نے تمام ضلع مجسٹریٹس اور متعلقہ عہدیداروں کو ہدایت دی ہے کہ ہائر سکینڈری سطح تک کے تمام سرکاری اور خانگی اسکولوں میں کام کاج کو 3 اکتوبر تک یقینی بنایا جانا چاہیے اور کالجوں کو 9 اکتوبر سے پہلے کھولا جائے گا۔

بارہویں جماعت کے ایک طالب علم نے کہا کہ ہم نے نصف نصاب بھی مکمل نہیں کیا ہے جبکہ دوسری طرف امتحانات قریب آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نے نصف نصاب بھی مکمل نہیں کیا ہے جبکہ دوسری طرف امتحانات نزدیک آرہے ہیں کیونکہ انتظامیہ نے وقت پر امتحانات منعقد کروانے کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سے ہماری ذہنی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں کہ آیا امتحان میں پرچے کس قسم کے آئیں گے۔

دسویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ پر مشتمل ایک گروپ نے کہا کہ ٹیویشن کے ذریعے حصول تعلیم اسکول میں پڑھنے کا قطعی نعم البدل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہم نصاب مکمل کرنے کے لئے ٹیویشن جاتے ہیں لیکن اسکول میں علم حاصل کرنے اور ٹیوشن کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے، اسکول میں تعلیمی ماحول ہوتا ہے جو نہ صرف تحصیل علم میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ دوسری سرگرمیوں کے لئے بھی مفید ہوتا ہے۔

ایک استاد نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر کہا کہ موجودہ نامساعد صورتحال سے بچوں کے نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں بچے اگر اسکول آتے بھی ہیں لیکن ان میں پڑھائی کی طرف کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ آنے سے پہلے جانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کلاس میں ذہین اور محنتی بچے بھی آج کل پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔ نویں جماعت کے ایک طالب علم کے والد نے کہا کہ میرا بیٹا پڑھنے کے بجائے اب دن بھر کرکٹ کھیلتا رہتا ہے میں بھی اسی میں خوش ہوں کہ کم سے کم ذہنی پریشانی سے محفوظ رہ پائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ وادی میں جاری نامساعد صورتحال کے باعث تعلیمی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے اگرچہ کئی والدین نے اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لئے بیرون ریاست روانہ کر رہے ہیں لیکن بیشتر طلبہ خاص طور پر غریب گھرانوں کے طلبہ کا تعلیمی مستقبل تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔