Friday, May 17, 2024
Homeٹرینڈنگنظام الدین تبلیغی مرکز پرمیڈیا کا حملہ ، مرکزی اور ریاستی حکومت...

نظام الدین تبلیغی مرکز پرمیڈیا کا حملہ ، مرکزی اور ریاستی حکومت واقعہ کی اصل ذمہ دار

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ روزاول سے ہی اسلام دشمن طاقتیں اور آج کے دور میں میڈیا ہراس چھوٹے موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جس کے ذریعے مسلمانوں یا اسلام کوبدنام کیا جاسکے اور اب جبکہ ساری دنیا میں کرونا وائرس کی وجہ سے لوگ موت کے ننگے ناچ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں تو اسلام دشمن میڈیا ہر اس موقع کی تلاش میں ہے جس کے ذریعے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جا سکے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کہیں نہ کہیں یہی لوگ اصل ذمہ دار ہیں ،اس کوشش میں انہیں اب دارالحکومت دہلی کے نظام الدین مرکز کا واقعہ ہاتھ لگ گیا ہے ۔

نظام الدین کے متعلق اس وقت سارے میڈیا میں خبریں کافی گرما گرم بحث میں تبدیل ہو چکی ہیں اور سارا میڈیا کوشاں ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہندوستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں نظام الدین کے تبلیغی مرکز کو اصل قصور قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نادیا جائے حالانکہ نظام الدین مرکز کی جانب سے طویل ترین پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے تمام تر الزامات اور افواہوں کی تردید کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود مختلف میڈیا میں یہ خبریں گشت کر رہی ہیں کہ نظام الدین کی وجہ سے دہلی اور دیگر علاقوں میں کرونا وائرس کے پھیلنے کی شدید خطرات ہیں ۔

ایک جانب جہاں نظام الدین کے تبلیغی مرکز کو کورونا وائرس کے پھیلنے کا کا اصل ذریعہ بتایا جا رہا ہے وہیں اس سے کہیں زیادہ دہلی میں میں حالات کو خراب کرنے میں ریاستی اور مرکزی حکومتیں ہی اصل ذمہ دار ہے کیونکہ جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ہندوستان بھر میں  سب سے پہلے  ایک دن کے لاک  ڈاؤ ن کا اعلان کیا جس کے بعد دہلی کی حکومت نے بھی لاک  ڈاؤن میں توسیع کا اعلان کردیا جس کی وجہ سے دہلی میں پھنسے مزدوروں  اورمرکز میں موجود سینکڑوں افراد کی دہلی سے انکے آبائی مقامات تک منتقلی کا کوئی انتظا م نہیں کیا گیا ۔

نظام الدین مرکز کے واقعے سے چند روز قبل دہلی کی سڑکوں پر ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے مزدوری کے لیے یہاں رہنے والے ہزاروں افراد کی تعداد اپنے آبائی مقامات کو روانہ ہونے کے لئے ہجوم کی شکل میں دیکھی گئی ۔ یہ غریب مزدور سڑکوں پر بے یار و مدد گار  ہجوم کی شکل میں موجود تھے  ۔ان کے اپنے آبائی مقامات تک رسائی کے لیے مرکزی یا ریاستی حکومت نے حمل ونقل کے کوئی انتظامات نہیں کیے جس کے بعد اب نظام الدین مرکز کو میڈیا نشانہ بنا رہا ہے جو دراصل اس کی مسلم دشمنی کا ایک اور ثبوت ہے

لاک ڈاؤن  کا اعلان اور نظام الدین مرکز انتظامیہ کی کوششیں

یہاں اس بات کا تذکرہ اہمیت کا حامل ہے کہ نظام الدین میں موجود تبلیغی کا مرکز تقریبا ایک صدی قدیم  مرکز ہے جہاں روزانہ دنیا بھر کے کئی افراد دین سیکھنے اور اس دین کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی خدمات میں اپنی جان مال اور توانائی صرف کرتے ہیں ۔یہاں کوئی بھی پروگرام اچانک طے نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی اجلاس  کو منعقد کرنے کے لیے کئی مہینوں اور بعض اوقات سال پہلے منصوبہ بندی ہوتی ہے اور پروگرام طے کیا جاتا ہے لیکن اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے نظام الدین کے انتظامیہ کو جو مشکلات ہوئی اسے کسی میڈیا نے پیش نہیں کیا اور نہ ہی حکومت کی جانب سے بہتر انتظامات نہ کیے جانے پر کسی میڈیا نے توجہ مبذول کروائی ۔ 22 مارچ کو کو وزیراعظم نریندرمودی نے ایک دن  کا جنتا کرفیو کا اعلان کیا جس کے بعد بعد رات نو بجے تک ہندوستان بھر میں کرفیو نافذ رہا ۔ 22مارچ کی رات 9 بجے جنتا کرفیو کے ختم ہونے کا نظام الدین میں موجود ہزاروں افراد انتظار کر رہے تھے تاکہ کرفیو ختم ہونے کے بعد فوراً وہ اپنے آبائی مقامات کی طرف روانہ ہوجائے لیکن 9 بجے  سے قبل ہی دہلی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال نے اس جنتا کرفیو کو 31 مارچ تک لاک ڈاؤن  میں تبدیل کرنے کا اعلان کردیا جس کے بعد مرکز میں پھنسے بیرونی ریاستوں اورممالک کے افراد کی پریشانیاں اور بڑھ گئیں۔ 23 مارچ کی شام وزیراعظم نے ہندوستان کے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ جہاں ہیں وہیں رہ جائیں جس کے بعد نظام الدین انتظامیہ کے لیے دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ یہاں موجود افراد کا طبی معائنہ کرتے ہوئے انہیں قیام کی سہولت فراہم کرے ۔ نظام الدین  مرکز کے انتطامیہ نے ہر پہلی دستیاب سواری سے مرکز میں موجود افراد کے سفر کا انتظا م کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی حالانکہ انہیں حکومت کی جانب سے صرف سرد مہری کا ہی ثبوت ملا۔

مرکز کو خالی کروانے کی انتظامیہ کی کوشش اور حکومت کی مجرمانہ کاہلی

نظام الدین کے تبلیغی مرکز کی جانب سے جاری کردہ طویل ترین پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ   24 مارچ 2020 کو اچانک ایس ایچ او ، پی ایس ایس کے ذریعہ نوٹس جاری کی گی جس میں حضرت نظام الدین  ​​مرکز کے احاطے کی بندش کی بات کہی گئی ۔ 24 مارچ 2020 کوہی اسی کا جواب دیا گیا ، جس میں کہا گیا تھا کہ مرکز کی بندش سے متعلق ہدایات کی تعمیل پہلے ہی سے جاری ہیں اور گذشتہ روز 1500 کے قریب افراد روانہ ہوگئے ہیں ، اس طرح مرکز میں مختلف ریاستوں اور قومیت سے تعلق رکھنے والے 1000 کے قریب زائرین کو چھوڑ دیا گیا۔

 یہ بھی بتایا گیا کہ ایل ڈی۔ متعلقہ ایس ڈی ایم سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ گاڑی کے پاس جاری کریں تاکہ باقی افراد کو دہلی سے باہر اپنے آبائی مقامات پر بھیجا جاسکے۔ یہاں یہ بتانا مناسب ہے کہ ڈرائیوروں کے ناموں کے ساتھ رجسٹریشن نمبر والی 17 گاڑیوں کی فہرستوں کے علاوہ ان کے لائسنس کی تفصیلات ایل ڈی کو جمع کروائی گئیں تاکہ مرکز میں پھنسے ہوئے زائرین اور مہمانوں کو ان کی منزل کی طرف لے جایا جاسکے لیکن اس پر بھی حکومت کے ارباب مجاز نے سردمہری کا ثبوت دیا۔

عینی شاہدین کے بیانات اور ویڈیوز

ایک جانب  ہندوستان بھر کا سارا میڈیا نظام الدین مرکز پر  الزامات کی بارش کرتے ہوئے  اپنے تعصب کا ثبوت دے رہا ہے تو دوسری جانب مرکز میں موجود افراداورڈاکٹروں کے ذریعہ معائنوں کے دوران ہونے والی سرگرمیوں کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع ہورہے ہیں جس میں واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ مرکزمیں موجود افراد کا نہ صرف طبی معائنہ کیا جارہاہے بلکہ تمام ڈاکٹرس اور عوام کے درمیان ایک خوش گوار ماحول ہے جو پرسکون اندازمیں اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔

ایک  ویڈیو میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے چند بیرونی افراد کو جن کا مرکز میں قیام سے تعلق نہیں جن میں کھانسی اور سردی کی علامتیں ہیں، انہیں مرکز کے اس قافلہ میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہےجن کا معائنہ ہورہا ہے  تاکہ اگر ان کے ٹسٹ مثبت آئیں تو پھر مرکز کے حریف گروہوں کو موقع مل جائے کہ وہ  اپنی دشمنی کو اور ثبوتوں کے ساتھ پیش کرسکیں ۔

مسلکی اختلافات اور سوشل میڈیا پر مسلمانوں کا رد عمل

اس وقت کورونا وائرس ساری انسانیت کا دشمن بنا ہوا لیکن میڈیا اس کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹہرانےکےلئے ہر اس موقع کے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اسی دوران نظام الدین مرکز کا واقع اس کے ہاتھ لگا ہے لیکن یہ بھی ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ ان نازک حالات میں سوشل  میڈیا خاص کر فیس بک اور واٹس ایپ پر اسے مسلکی موضوع بناتے ہوئے کئی مسلم افراد تبلیغ اور تبلیغی جماعت کو نشانہ بنا رہے ہیں جوکہ افسوس ناک ہے کیونکہ مسلکی اختلافات ہمارے آپسی اختلافات ہیں لیکن جس طرح  اس وقت مسلم دشمن میڈیا امت مسلمہ کو نشانہ بنارہا ہے ان حالات میں سوشل میڈیا پر مسلکی اختلافات پر بحث ومباحثہ مسلمانوں کو کمزور کردے گا ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ایسے اختلافی  تبصرے اسلامی قلعہ کو بیرونی حملے سے بچانے کی بجائے قلعہ کے اندر سے ہی بیرونی دشمنوں کو قلعے میں داخل ہونے کے لئے قلعے کے دروازے کھولنے کے مترادف ہوں گے۔ اس وقت ہمیں  ایسے اختلافی تبصروں اور میڈیا کی افواہوں کوپھیلنے میں اپنا منفی کردار ادا کرنے سے باز رہنا ہوگا۔سوشل میڈیا پر اگر کچھ کرنا ہے ہی تو افواہوں کا سدباب اور حقائق کو پیش کرنے کا جرتمندانہ مظاہرہ کرنا ہوگا۔