Sunday, May 19, 2024
Homesliderنکلس روڈ پی وی نرسمہا راؤ کے  نام سے موسوم ، اب...

نکلس روڈ پی وی نرسمہا راؤ کے  نام سے موسوم ، اب حیدرآبادی مسلمان کیا کریں؟

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم انجہانی پی وی نرسمہا راؤ کی  مخالف مسلم ذہنیت اور نظام سرکار کی اراضیات کو اپنے ناپاک ارادوں کےلئے استعمال کرنے کے لئے قوانین بنانا ، بابری مسجد کی شہادت کے لئے راہیں ہموار کرنا جیسے کئی اور کام ہیں جس سے ہندوستانی مسلمانوں اور خاص کر حیدرآبادی عوام کےلئے نرسمہا راؤ کبھی بھی قابل قبول شخصیت نہیں رہے اور اب ٹی آر ایس حکومت کی جانب سے سکندرآباد اور حیدرآباد شہروں کو جوڑنے والی شہر کی مشہور نکلس روڈ کو نرسمہا راؤ مارگ سے موسوم کرنا مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ۔نرسمہا راؤ کےمخْالف مسلم کارنامے اور اس سے مسلمانوں کو ہونے والی تکلیف کے متعلق ڈاکٹر فاضل حسین پرویز نے گزشتہ سال ایک بہترین مضمون تحریر کیا تھا جس میں انہوں نے اختتامی سطور کچھ اس طرح تحریر کئے تھے۔

‘‘بابری مسجد ہو یا ایک خانہ کی مسجد… اللہ کے گھر ہیں۔ کل بھی ہماری قیادت نے مصلحت کی چادر اوڑھ رکھی تھی آج بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ خاموشی اختیار کریں، کم از کم اپنی نظروں سے تو خود نہیں گریں گے۔ ورنہ آپ جتنی مخالفت کرتے جائیں گے نہ صرف ٹی آر ایس بلکہ دوسری جماعتیں بھی جوش و خروش کے ساتھ اس میں حصہ لیتی رہیں گی۔
نرسمہا راؤ کی مخالفت اس کی زندگی میں کسی نے نہیں کی، ہاں! خود ان کی پارٹی نے کنارہ کشی ا ختیار کرلی۔ آخری دنوں میں ان کا حال،آج کے اڈوانی جیسا ہوگیا تھا۔ زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ کمال الدین احمد، عبدالرحمن انتولے جیسے قائدین نے بابری مسجد سانحہ کے بعد نرسمہا راؤ کی شان میں قصیدے پڑھے۔ سب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، اس لئے ان کے بارے میں کیا کہیں ، اللہ ہمیں عقل ناخن عطا کرے۔ آمین’’

اب نکلس روڈ پر نرسمہا راؤ کے نام کا بورڈ آویزاں کردیا گیا ہے جس کے بعدمسلمانوں کی ناراضگی سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہی جس میں سب نے ٹی آر ایس حکومت اور کے سی آر کے فیصلے کی مذمت کی ہے ۔مسلمانوں کی اس مخالفت کے باوجود اب نکلس روڈ کے متعلق لیا گیا یہ فیصلہ تبدیل ہونے والا تو نہیں ہے تو پھراب مسلمان کیا کریں؟

اپنی ناراضگی تو ہم نے درج کروادی ہے لیکن اب مودی حکومت ہو یا یوگی حکومت یا پھر زبانی طور پر نظام سرکار کے قیصدے پڑھنے والے کی سی آر سب کے کام تو ایک جیسے ہیں تو کیا صرف یہ ناراضگی کافی ہوگی؟مسلمانوں کی ناراضگی کے بعد کوئی مسلمانوں کو خوش کرنےوالا کام تو نہیں کرے گا بلکہ اس طرح کے مزید کام پورے جوش و خروش کے ساتھ کئے جائیں گےکیونکہ سب کو معلوم ہے کہ اس طرح کے کام سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے اور انہیں تکلیف ہوگی ۔

ان حالات میں مسلمانوں کےلئے اب ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنے غم و غصہ کو شائستہ یا ناشائستہ طریقہ سے ظاہر کرنے کے بعد کے سی آر کو مسلمانوں کی جانب سے کی جانے والی حمایت ، 12 فیصد تحفظات اور آنے والے انتخابات میں ہونے والے ممکنہ نتائج سے واقفیت دلوانے کی سیاسی انداز کی رپورٹ پیش کی جائے اور انہیں یاد دلایا جائے کہ جہاں ایک جانب بی جے پی ان سے اقتدار کی کرسی چھیننے کی پوری کوشش کررہی ہے تو دوسری جانب وائی ایس شرمیلا کی نئی سیاسی جماعت کا سورج بھی تلنگانہ کے آسمان پرطلوع ہوچکا ہے،لہذا ان سب حالات پر مسلمان گہری نظر رکھنے کی انہیں یاد دہانی کروائی جائے۔ اس کے علاوہ آنے والی تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں ایک جانب مسلمانوں کے ووٹوں کی ٹی آر ایس اور شرمیلا کی پارٹی یا کسی اور پارٹی کے ذریعہ تقسیم ہونے کو روکنے کے علاوہ مسلمانوں کےلئے کیا بہتر ہوگا اس کی منصوبہ بندی بھی ابھی سے ناگزیر ہوچکی ہے۔

فرحت پٹھان