Sunday, May 12, 2024
Homeٹرینڈنگوہ 23 سال کون لوٹائے گا؟

وہ 23 سال کون لوٹائے گا؟

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ کانگریس کے دور میں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرنے کا یہ طریقہ کار تھا کہ جہاں کہیں بھی بم دھماکے ہوں اس کے فوراً بعد میڈیا میں یہ ریل چلائی جانے شروع ہوجاتی تھی کہ اس دھماکہ کے درپردہ ہاتھ فلاں فلاں تنظیم کا ہے جس کے بعد ٹی وی اسکرینوں پر چند مسلم ناموں کو جلی حروف میں دیکھا جانا شروع کردیا جاتا تھا۔ اس کے بعد مقامی اور دیگر ریاستوں کی پولیس کے جانب سے دھڑا دھڑا مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع ہوجاتی اور ان کے خلاف عدالت میں ایک مقدمہ درج کرتے ہوئے ان نوجوانوں کو برسوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا اور مقدمات ایک ،دو یا تین برس نہیں بلکہ دہوں تک چلتے اور پھر 15 اور 20 سال بعد کئی نوجوانوں کو بے گناہ قرار دے کر رہا کردیا جاتا اب ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا ہے جہاں دو دہے قبل ہوئے دھماکے میں گرفتار کئے کئے نوجوانوں کو بے قصور قرار دیتے ہوئے انہیں بوڑھاپے میں رہا کیا ہے لیکن ان کی بے قصوری ثابت کرنے تک زندگی کے جو اہم سال انہوں نے جیل میں گذارا ہے اسکا حساب کون دے گا؟

راجستھان ہائی کورٹ نے 23 سال قدیم سملیٹی بم دھماکہ معاملہ میں 6 ملزمین کو رہاکر دیا ہے۔ یہ فیصلہ عدالت نے 23 جولائی کو سنایا اور اب مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والے رہا سبھی6 افراد اس غم سے بے حال ہیں کہ ان کی زندگی کے اہم ترین 23 سال ختم ہو گئے، اس کا ازالہ کیسے ہوگا۔ کسی کی تجارت ختم ہوگئی، کسی کا تعلیمی سلسلہ ٹوٹ گیا، کسی کا کیریر تباہ ہو گیا تو کسی کے قریبی رشتہ دار ہی ان 23 برسوں میں دنیا سے چلے گئے۔راجستھان ہائی کورٹ نے 1996 میں دوسا ضلع کے سملیٹی علاقہ میں ہوئے بم دھماکہ معاملہ میں جن 6 ملزمین کو بے قصور قراردیا اور رہائی پانے والوں میں رئیس بیگ، جاوید خان، لطیف احمد باجہ، محمد علی بھٹ، مرزا نثارحسین اور عبدالغنی ہیں۔ ان تمام افراد کو دوسا کے باندیکوئی میں واقع عدالت نے ستمبر 2014 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی لیکن ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو بدل دیا۔

 ان ملزمین کے وکیل شاہد حسین نے تفصیلات بتاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بنچ نے دیے گئے فیصلہ میں اعتراف کیا کہ فریق استغاثہ سبھی 6 لوگوں کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ رہا کیے گئے نوجوانوں میں سے رئیس بیگ کا تعلق آگرہ سے ہے جب کہ پانچ دیگر لوگ جموں و کشمیر کے باشندہ ہیں۔ جب عدالت نے انھیں رہا کرنے کا فیصلہ سنایا تو ساتھ میں ہی کہا کہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں جو سملیٹی بم دھماکہ کے اہم ملزم اور پھانسی کی سزا سنائے گئے ڈاکٹر عبدالحمید کے ساتھ ان کا رشتہ جوڑتا ہو۔

 عدالت نے جب ملزمین کو رہا کیا تو ایک میڈیا سے انھوں نے کہا کہ کریمنل انوسٹیگیشن ڈپارٹمنٹ (کرائم برانچ) کے ذریعہ مقدمہ کا ملزم بنائے جانے سے قبل وہ ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں تھے۔ سملیٹی دھماکہ میں مقدمہ بنائے جانے سے قبل محمد علی بھٹ کارپیٹ کا کاروبار کرتے تھے، مرزا نثار نویں درجہ کے طالب علم تھے اور عبدالغنی ایک اسکول چلاتے تھے۔ لطیف احمد باجہ دہلی اورکٹھمنڈو میں کشمیری ہینڈی کرافٹ فروخت کیا کرتے تھے۔ ان تمام افراد کی زندگی پچھلے 23 سال میں تہس نہس ہوکر رہ گئی ہے۔ عبدالغنی نے اپنی آپ بتی سناتے ہوئے کہا ہے مجھے نہیں معلوم نہیں کہ اس درمیان دنیا میں کیا کچھ ہوا۔ رئیس بیگ اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ان 23 سال میں اپنے کئی رشتہ داروں کوکھو دیا ہے۔ میری والدہ، والد، دوچچا اس دنیا سے گزر گئے ہیں۔ میں رہاکر دیا گیا ہوں، لیکن گزرے ہوئے سال مجھے واپس کون کرے گا۔

9ویں درجہ میں رہتے ہوئے ملزم بنائے گئے نثار تکلیف بھرے 23 سال کے گزرنے کے بعد اب ایک نئی شروعات کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ مجھے جب ملزم بنایا گیا تھا تو میں 16 سال کا تھا، لیکن عہدیداروں نے مجھے 19 سال کا ثابت کیا۔ اب میں 39 سال کا ہوں اور شادی کر کے اپنی زندگی کو ایک نئی شروعات دینا چاہتا ہوں۔آزادی ملنے کے بعد کچھ اپنے رشتہ داروں سے فون پر بات کرنے کے لئے بے چین نظر آ رہے تھے تو کچھ جماعت اسلامی ہند دفتر کے شکرگزار نظر آ رہے تھے۔ ان تمام افراد کا ماننا ہےکہ انھیں بے قصور ثابت کروانے میں اس ادارے کاکردار بہت اہم رہا۔ ان کی خوشی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب انھیں کھانا کھانے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے منع کر دیا، کیونکہ انھیں آزادی مل گئی تھی جس کی خوشی نے ان کی بھوک کو ختم کر دیا۔

 خوشی تو ان کے اہل خانہ میں بھی ہے لیکن ساتھ ہی افسوس بھی کہ جوگناہ کئے ہی نہیں گئے تھے اس کی سزا ایسی ملی جس نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ واضح رہے کہ 22 مئی 1996 کو بیکانیر سے آگرہ جا رہی راجستھان روڈ ویز کی بس میں ہوئے بم دھماکہ میں 14 مسافرین کی موت ہو گئی تھی اور 37 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ باندی کوئی کی مقامی عدالت نے عبدالحمید کو بم دھماکہ کا اہم ملزم مانا تھا اور سلیم نامی شخص کو اسلحہ سربراہ کرنے کا ملزم مانا تھا۔ عبدالحمید کو جہاں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے وہیں سلیم کو سزائے عمر قید ملی ہے۔