Wednesday, May 22, 2024
Homeبین الاقوامیپلاسٹک کا استعمال کس طرح ہمیں کینسر کے قریب لے جانے لگا،احتیاط...

پلاسٹک کا استعمال کس طرح ہمیں کینسر کے قریب لے جانے لگا،احتیاط کیسے کریں

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد – کرہ ارض پر ایسی کوئی جگہ نہیں ہیں جہاں پلاسٹک ذرات موجود نہیں ہیں ۔سمندر کی گہرائی سے لے کر ساحل سمندر کی ریت، پانی کی بوتل سے لے کر کھانے کے پیکٹوں اور راستوں پر پلاسٹک یا اس کے ذرات موجود ہوتے ہیں اور تو اور جس ہوا میں ہم سانس لے رہے ہیں اس میں بھی پلاسٹک کے ذرات اس قدر بڑھ چکےہیں کہ جو سانس ہم لے رہے ہیں اس میں پلاسٹک ذرات کی موجودگی نے ہمیں کئی خطرناک خدشات سے دوچار کردیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ہی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)سمیت کچھ ممالک کی تنظیموں کی جانب کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کا ہر بالغ شخص سالانہ 50 ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے بھی مائکروپلاسٹک پر حال ہی میں ایک مفصل رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ ہوا، پینے کے پانی اور غذائی اشیاء میں پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج کل ہندوستان سمیت دنیا بھر میں پلاسٹک کے استعمال کی روک تھام کے لئےکئی اقدامات کئے جارہے ہیں اور بڑے شہروں  میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے ۔لیکن اب دیکھنا یہ ہے حکومتی اقدامات سے ہٹ کرعوام، جو تقریبا 70 سال سے اپنی روز مرّہ ضروریات سے لے کر باقی چیزوں میں پلاسٹک کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں، اس حکومتی فیصلے پر کس حد تک عمل کرتے ہیں لیکن  اس سب سے پہلے یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے استعمال کو ترک کرنے پر زور کیوں دیا جا رہا ہے۔

پلاسٹک ایک پولیمر ہے اور سائنسی اصطلاح میں پولیمرایک جیسے جوہروں کی زنجیر کو کہتے ہیں۔ یہ پولیمیرز زیادہ تر کاربن اور ہائیڈروجن کے جوہروں سے بنے ہوتے ہیں. جبکہ چند پولیمرز آکسیجن، نائٹروجن، سلفر، کلورین، فلورین، فاسفورس اور سلیکون سے بنتے ہیں۔پولیمر میں موجود یہ جوہر آپس میں بہت زیادہ مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک 500 سے ایک ہزار سال تک ختم نہیں ہوتا۔ پلاسٹک کی اسی مضبوطی اور عرصہ دراز نہ ختم ہونے کی صلاحیت نے ہمیں اس کے استعمال کی طرف راغب کیا۔ہماری روز مرہ کی زندگی میں پلاسٹک کا استعمال اس قدر زیادہ ہوچکا ہے کہ اس کے استعمال کی بغیر زندگی  کا تصور ہی محال ہوچکا ہے ۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو پلاسٹک کی بہت سی مصنوعات ملیں گی۔ کسی تفریحی مقام پر مسرور ہونے کے لئے جائیں تو پلاسٹک کی بوتلیں، گلاس اور دیگر چیزیں کو موجودگی گندگی پھیلاتی نظر آئے گی۔اسی طرح اگر کسی دریا کے کنارے بیٹھے ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہونا چاہیں تو ہوا کو گرد آلود کرتے اڑتے ہوئے پلاسٹک کی پرنیاں  اس حسین نظارے پر داغ دار کردیتے ہیں۔

گھروں میں استعمال کے بعد پھینک دیے جانے والا پلاسٹک نالیوں اور گٹروں میں پھنس کر پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور وہی گندا پانی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آتا ہے جس سے طرح طرح کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ گزشتہ دنوں حیدرآباد اور اس کے جڑواں شہر سکندرآباد  میں شدید بارشوں کی وجہ سے گلیوں اور سڑکوں پر نظر آنے والی گندگی اسی پلاسٹک کی مرہون منت تھی اور اس کی رہی سہی کسر قربانی کے جانوروں کی گندگی کو  نکال دیاجو اس کے بعد سڑکوں اور گلیوں کی راہوں میں بہہ رہی تھی۔کھلونوں، کھانے کے برتنوں اور ڈبوں، فرنیچر اور برقی آلات میں پلاسٹک کے استعمال نے جہاں لکڑی کے استعمال کو کم کرکے جنگلات کو بچانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے وہیں زمین میں دبے پلاسٹک نے زیرزمین پانی کے ذخائر کو بری طرح متاثر کیا ہے. یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں پینے کے صاف پانی کی کمی ہوتی جارہی ہے۔

پلاسٹک کا استعمال صرف ماحول کے لئے ہی نقصاندہ  نہیں بلکہ تمام جانداروں کے لئے بھی وبال جان ہے.۔پلاسٹک کے شاپر میں یا ڈبے میں لی گی لذیذ غذا کسی زہر سے کم نہیں ہے۔ اسکول اور دفاتر جانے والے پلاسٹک کے ڈبے میں کھانا لے جاتے ہیں جو کہ مائکروویو اون میں گرم کرکے کھانے پر زہر میں تبدیل ہوجاتا ہے کیونکہ گرم ہونے پر پلاسٹک کے اجزا کھانے میں شامل ہوجاتے ہیں جوکے انسانی جسم میں داخل ہوکر کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں۔تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ بائیس فینول اے  (بی پی اے ) پلاسٹک کا ایک ایسا کیمیائی جز ہے جو کینسر کا سبب بنتا ہے۔ اکثر پلاسٹک بنانے والے کارخانے اپنا فاضل مادے کا اخراج نہروں اور نالوں میں کرتے ہیں جس سے آبی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ان کی بہت سی انواع ناپید ہونے کا خطرہ بڑھنے لگا ہے۔

اب ہمارے ذہنوں میں یہ سوال گشت کرنے لگتا ہے کہ اب تو پلاسٹک ہماری روز مرہ استعمال کی ہر چیز میں پایا جاتا ہے اور اگر حکومت کے کہنے پر اس کا استعمال ترک کر بھی دیں تو ان کی زندگی میں بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔آج پلاسٹک کے متبادل متعدد چیزیں موجود ہیں جن میں کاغذی لفافے ،کپڑے کے تھیلے اورماحول دوست شاپر شامل ہیں ۔ ہندوستان  میں حکومت کے علاوہ بہت سےتعلیمی اور صنعتی ادارے پلاسٹک کےاستعمال کے خلاف مہم چلا رہے ہیں ۔گھروں میں پلاسٹک کی مصنوعات کی بجائے چینی یا شیشے کے برتنوں کو ترجیح دیں۔ پلاسٹک کے تھیلیوں کی بجانے متبادل چیزوں کا استعمال شروع کریں۔ ہمیں پلاسٹک کے نقصانات سے محفوظ رہنے کےلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ مشہور مقولہ ہے کہ قطرہ قطرہ  سمندر  بنتا ہے لہذا ماحول اور ملک دونوں کی بہتری کے لئے ہر فرد کا کردار اہم ہے۔