Tuesday, May 21, 2024
Homeٹرینڈنگکالے دھن کی واپسی کے نام پرغریب کو پریشان نہ کرو

کالے دھن کی واپسی کے نام پرغریب کو پریشان نہ کرو

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔ پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس سے صدرجمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے اپنے پہلے صدارتی بیان میں کالے دھن اور بدعنوانی پر روک کے موضوعات پر بات کی ہے ۔صدر نے کالے دھن اور بدعنوانیوں پر لگام کسنے کی بابت حکومت کے عزائم کودہراتے ہوئے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ اس مہم کو اور تیز کیا جائے گا۔ کووند نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت ملک میں بدعنوانی روکنے کے لئے پابند عہد ہے اور اس سمت میں متعدد قدم اٹھائے گئے ہیں۔ ملک کو یقین دلایا کہ کالے دھن کے خلاف شروع کی گئی مہم اور تیز رفتار سے آگے بڑھائی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ کالے دھن کے ضمن میں اب 146 ممالک سے معلومات حاصل ہو رہی ہے ، جس میں سوئٹزرلینڈ بھی شامل ہے۔ ان میں سے 80 ممالک ایسے ہیں جن سے ہماری معلومات کے خودکار طریقے سے تبادلہ کرنے کا بھی معاہدہ ہوا ہے۔ جن لوگوں نے بیرون ملک کالا دھن جمع کررکھاہے ، اب ہمیں ان سب کی معلومات حاصل ہو رہی ہے۔

صدر جمہوریہ ہند کے اس صدارتی خطبہ کے بعد عام لوگ پریشانی میں مبتلاءہوگئے ہیں کیونکہ دو سال پہلے کالے دھن کے نام پر عوام کو گھنٹوں بنکوں کی قطاروں میں کھڑے رہنے کی مصیبتیں برداشت کی ہیں۔ ہندوستان میں کالا دھن ان پیسوں کو کہا جاتا ہے جو چور بازار میں کمائے جاتے ہیں اور ان پر عائد ہونے والے محصول آمدنی اور دیگر اقسام کے محصول ادا نہیں کیے جاتے۔ ہندوستانی شہریوں کی جانب سے بیرون ممالک کے بنکوں میں جمع کی گئی رقم کی مجموعی تعداد نامعلوم ہے۔ بعض رپورٹس میں سوئٹزرلینڈ میں جمع شدہ رقم کی کل قیمت 50 ٹریلین امریکی ڈالر بتائی جاتی ہے۔ جبکہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کالے دھن کا حجم تقریبا 7,280,000کروڑ روپے ہے۔ تاہم حکومت سوئٹرزلینڈ اور سویس بینکرز اسوسی ایشن کی رپورٹوں کے مطابق رقوم کی یہ تعداد غلط ہے اور درست تعداد دو بلین امریکی ڈالرس ہے۔

کالے دھن کے خلاف کاررائی کے بیان نے ہندوستانیوں میں ایک قسم کا خدشہ پیدا کردیا ہے کیونکہ وہ دوسال پہلے بھی کالے دھن کی ملک واپسی اور غریبوں کے مسائل دور ہونے کے نام پر شدید مسائل برداشت کرچکے ہیں۔ 8 نومبر 2016 کو جب ساری دنیا کی نظر امریکی انتخابات پر مرکوز تھی تو اسی وقت وزیر اعظم مودی نے ٹی وی پر آکر یہ اعلان کر دیا کہ 500اور 1000روپئے کے نوٹ کو ختم کر دیا جا ئے گا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ایسا کرنا بہت ضروری تھا کیونکہ اس سے ہندوستان میں کالے دھن کا خاتمہ ہوجا ئے گا۔ اس اعلان سے پورے ملک میں افراتفری پھیل گئی۔ سوشل میڈیا پر دھڑا دھڑ لوگوں کے پیغام پوسٹ کئے جانے لگے۔کوئی مودی کی ستائش کر رہا تھا تو کوئی ان کے اعلان پر حیرانی کا اظہارکررہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں ایک عجیب و غریب ماحول بن گیا۔ بینکوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگنے لگیں اور لوگوں میں پریشانی کے ساتھ ساتھ غصہّ بھی پایا جانا لگا۔ لیکن جوں جوں وقت بیت رہا تھا ملک میں افراتفری اور بڑھتی جارہی تھی۔

 برطانیہ کے علاوہ دنیا کے تمام اخبارات میں وزیر اعظم کے اس اعلان پر حیرانی کے علاوہ عام لوگوں کی پریشانیوں کے بارے میں تبصرہ کیا گیا ہے اور مودی کے اعلان کو ایک حیران کن قدم بتا یا گیا ہے۔زیادہ تر ہندوستانی جو ہندوستان سے باہر رہتے ہیں انہوں نے وزیر اعظم کے اس قدم کو کافی سراہا اور وہ مانا کہ وزیر اعظم کا یہ قدم ان کے انتخابات کے اس وعدے کے مطابق ہے جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ حکومت بننے کے اندورن 100 دن کالا دھن کو ملک میں واپس لا ئیں گے۔ زیادہ تر ہندوستانیوں کو وزیر اعظم مودی کے بھاشن اور زوردار تقریر نے اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ اس لئے وہ مودی کے ہر فیصلے پر صرف واہ واہ ہی کرتے نظر آتے ہیں اور ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن مودی کی نیند تب حرام ہوگئی جب لاکھوں ہندوستانی بینکوں کے باہر سارے دن کھڑے اپنی باری کا انتطار کرتے ہوئے نظر آئے اور پورے ملک میں افراتفری کا منظر پایا جانے لگا۔

اس کے علاوہ عام لوگوں میں کافی غصہّ بھی ابھرنے لگا تھا۔ قطار میں کھڑے عام آدمی کہہ رہے تھے کہ کیا یہاں کوئی بھی آدمی ان قطاروں میں کالا دھن والا دِکھ رہا ہے؟ پھر مودی اچانک ہم روزانہ مزدوری کرنے والوں کوکیوں پریشا ن کر رہے ہیں؟ اس کے علاوہ متعدّد شہروں میں ہجوم بے قابو ہونے کی وجہ سے عوام کو پولیس نے بے رحمی سے پٹائی بھی کی۔اس دوران کئی مقامات پر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے سے کئی لوگوں کی جان بھی چلی گئی لیکن مودی جی اپنی انا اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہے اور حد تو تب ہوگئی جب گوا کی ایک تقریب میں مودی اپنی چھاتی دکھاتے ہوئے عام ہندوستانیوں کی شادی، بیمار لوگوں اور عوام کی تکلیف کا مذاق اڑاتے ہوئے جلسہ گاہ میں موجود لوگوں کی واہ واہ ہی لوٹی تھی۔

حکومت کے ترجمان ٹیلی ویژن پر آکر وزیر اعظم کے قدم کو ایک تاریخی اور مثالی قدم بتا رہے تھے اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایسا کرنا بہت ضروری تھا۔ ملک میں لوگوں نے کالا دھن چھپا رکھا ہے اور جس سے عام آدمی اور ملک کی معیشت کو کافی نقصان پہونچ رہا ہے۔ جب یہ سوال پوچھا جاتا کہ 500روپئے اور1000روپئے کے نوٹ پر پابندی لگا دینے اور بیک وقت 2000 روپئے کے نوٹ جاری کر کے کالا دھن کیسے ختم ہوگا؟تو ترجمان کہتے ہیں کے اس کا نتیجہ جلد منظرِ عام پر آئیگا اور اس میں کچھ وقت لگے گا لیکن دو سال سے زیادہ وقت گزجانے کے بعد بھی کالا دھن نہیں آیا۔ جب وزیر اعظم نے 500روپئے اور 1000روپئے کے نوٹ پر پابندی کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے چند دنوں کی مہلت مانگی تھی۔ بعد میں انہوں نے اپنی ایک تقریر میں لوگوں سے پچاس دن کی مہلت کی مانگ کرنے لگے جس سے لوگوں میں تشویش اور بڑھ گئی۔وزیر خزانہ کی شکل پر ہوائیاں اڑ تی دیکھی گئی جس کی ایک وجہ شاید ان کو خود اس بات کا پتہ نہیں تھا یا وہ اس بات سے غافل تھے۔ اور کہے بھی تو بیچارے کیا کہے کیونکہ پانی تو اب سر سے اوپر بہہ رہا تھا ۔

ویسے بھی اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کالے دھن کے معاملے میں ماسٹر اسٹروک مانے جاتے تھے تبھی ایم پی کیرتی آزاد کو بی جے پی پارٹی سے نکال دیا گیا ۔ کیری آزاد کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے ارون جیٹلی پر دھاندلی کا الزام لگا یا تھا۔ وزیر اعظم کے اس احمقانہ قدم اور اس کے حوالے سے چند اہم باتیں سب کو یاد ہی ہیں۔یوں تو حکومت اس بات کو نہیں بتا پائی ہے کہ ملک میں آخر کتنا کالا دھن ہے لیکن ایسا اندازہ لگایا جا رہا کہ اس کی گنتی کرنا آسان نہیں ہے۔جس کی ایک وجہ جعلی نوٹ بھی ہے جو بازار میں عام دستیاب ہے۔حکومت نے بینک کو یہ ہدایت دی تھی کہ اگر کوئی بھاری مقدار میں500 روپئے اور 1000روپئے کے نوٹ لے کر آئے تو اس سے پوچھ تاچھ کی جائے اور انکم ٹیکس کو اس کی اطلاع دی جائے۔ ویسے زیادہ تر لوگ بینک کے باہر 500روپئے اور 1000روپئے کے چند ہزار نوٹ ہی لے کر پریشانِ حال تھے لیکن ان تمام باتوں سے عام آدمی یہ نہیں سمجھ پارہا تھا کہ لمبی لمبی قطاروں میں دن بھر کھڑے ہو کر نوٹوں کے ایکسچینج کروانے سے کالے دھن کیسے ختم ہوجائیگا۔

تا ہم اس کے بر عکس لوگ یہ کہتے رہے کہ وزیر اعظم کی اس احمقانہ حرکت سے عام آدمی کا جینا حرام ہوگیا ۔ان کے گھروں میں چولہے نہیں جل رہے تھے۔ کسی کی بیٹی کی شادی ہونا نہ ممکن ہوگیا ہے تو کہیں کوئی بیمار اپنی علاج سے مایوس ہو کر مودی کو کوس رہا تھا۔آخر یہ کون لوگ ہیں جو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ایسی باتیں کہہ رہے تھے ۔کیا یہ لوگ کسی خاص سیاسی پارٹی کے حامی تھے؟جی نہیں یہ ہندوستان کا عام آدمی تھا جو روزانہ کام کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی گزار رہا تھا۔ ان میں شاید زیادہ تر وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے وزیر اعظم کی دھواں دھار تقریر سن کر کچھ لمحوں کے لئے اپنے ہوش و حواس گنواکر ایک امید کے تحت مودی کو ووٹ دیا تھا۔ اس بات کے لئے ووٹ دیا تھا کہ اب وہ ایک نئے ہندوستان میں ایک نئی اور اچھی زندگی گزارے گا جس کا مودی نے بار بار وعدہ کیا تھا۔

مودی حکومت نے اپنی پہلی معیاد میں کالے دھن کے خلاف جو حکمت علمی اختیار کی تھی اس سے کالا دھن تو واپس آیا نہیں بلکہ اس سے صرف اور صرف عوام آدمی ہی مسائل کا شکار ہوا اور بنکوں کے سامنے طویل قطاروں میں بے چارے کئی غریب آدمی اپنے ہی چند روپیوں کے حصول کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے اگر حکومت کا اس مرتبہ بھی کالے دھن کے خلاف ایسی ہی کسی کارروائی کا ارادہ ہے تو حکومت سے التجا ہے کہ وہ کالے دھن کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے کیونکہ کالے دھن کی واپسی کے بغیر ہی ہندوستان کا غریب خوش ہے۔