Thursday, May 9, 2024
Homeتازہ ترین خبریںکانگریس لیڈر محمد علی شبیر نے کے سی آر کو بتایا بی...

کانگریس لیڈر محمد علی شبیر نے کے سی آر کو بتایا بی جے پی کی’’ Bٹیم‘‘

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد: تلنگانہ کے سینئیر کانگریس لیڈر محمد علی شبیر نے گاندھی بھون میں میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے لیڈران جو پارٹی چھو ڑ کرٹی آر ایس میں شامل ہو رہے ہیں ،اُس تعلق سے بتایا ۔اور گاندھی بھون کیوں خالی ہو رہا ہے اس کی وجہ بتائی ۔محمد علی شبیر نے کہا کہ ان دنوں پورے ملک کے حالات الگ ہیں ،اور ریاست تلنگانہ کے حالات الگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پر چیف منسٹر کے سی آر صاحب یہ حلف لیتے ہیں کہ میں اس ملک کے قانون کا تحفظ کروں گا ۔مگر افسوس کہ وہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ میں کانگریس پارٹی چھوڑ کر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔اورمیں ان کو پارٹی کے عہدوں سے اور دولت سے نوازوں گا۔

محمد علی شبیر نے کہا کہ’’ میں نہیں سمجھتا کہ ملک کا کوئی بھی چیف منسٹر اس طرح ڈائریکٹ کہے گا کہ میں Defection Lawکی پرواہ نہیں کرتا۔اور پارٹی میں آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔لالچ دیا جا رہا ہے ،اس لئے ہمارے لو گ جا رہے ہیں۔ایک سے پو چھو کہ تم کیوں جا رہے ہو ۔۔؟ تو بولے کہ میرا 25کروڑ کا بل آنا ہے کے سی آربو لے پارٹی میں نہیں آئے تو نہیں دوں گا ۔دوسرے نے کہا کہ میرے ایک سو بیس کروڑ کے بل روک کے رکھے پارٹی میں شامل نہیں ہوئے تو نہیں دوں گا۔اس طرح مختلف ایم ایل ایز کو پہلے تو لالچ دے رہے ہیں یا دھمکیاں دے کر خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

محمد علی شبیر نے مزید کہا کہ ’’ میں کانگریس سے بھاگنے والے ان بھگوڑوں سے پوچھتا ہوں کہ ان دو تین مہینوں میں ہی کانگریس کی پالیسیاں تم کو کیوں برے لگنے لگے ۔۔۔؟ ان تین مہینوں میں ہی تم کو ایسا کیو ں لگا کہ کانگریس نے کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔؟ مجھے بتاؤ کہ کے سی آر نے پانچ سالوں میں کیا کیا ہے۔۔۔؟کو ئی نئی ترقی نہیں ہوئی ،نہ کو ئی نئی یو نیورسٹی بنی اور نہ ہی کو ئی نیا ہاسپٹل بنا۔مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات نہیں دئے گئے،تین طلاق کے معاملہ میں مو دی کے گود میں بیٹھے رہے۔مگر کچھ قائدین لالچ میں آکر وہی راگ الاپ رہے ہیں۔

محمد علی شبیر نے کہا کہ کے سی آر کی جانب سے ایم ایل ایز کو یہ لالچ دیا جا رہا ہے کہ تم پارٹی میں آئے تو دو سو کروڑ کا ڈیو لپمینٹ دوں گا اور نقد پیسے بھی دوں گا ورنہ پیسے نہیں دوں گا ۔اور نہ ہی سرکاری اسکیمات سے استفادہ کرنے دوں گا ۔میں کے سی آر سے پوچھتا ہوں کہ کیا کانگریس اور دیگر پارٹیوں کو عوام نے جتایا ہے،ان سے آپ پیسے نہ دینے کی بات کہہ رہے ہیں۔۔۔؟کیا وہ ریاست تلنگانہ کے عوام نہیں ہیں۔۔؟یہ تو ڈکٹیٹر شپ ہے ۔اور ڈیمو کریسی کی تو ہین ہے۔کیا کسی جمہوری ملک میں ایسا ہوتا ہے۔بلکہ عوام کے لئے جو حکومت کی اسکیمیں ہو تی ہیں وہ ان کوملنا چاہئے۔

ایم ایل سی انتخاب سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’آپ26 تاریخ کو دیکھیں گے کہ ایم ایل سی کے لئے کانگریس امیدوار جیون ریڈی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔اس سے معلوم ہو گا کہ پڑھے لکھے و گرائجویٹ طبقہ کے ووٹ کس سمت جا رہے ہیں۔70فیصد ووٹ جیون ریڈی کو ملیں گے،باقی 30فیصد ووٹ دیگر امیدواروں میں تقسیم ہوں گے۔اس سے یہ پتہ چلے گا کہ پڑھے لکھے لوگوں کا ووٹ کانگریس کے حق میں ہے۔اور جو ڈرا دھمکا کر اور لالچ دیکر ووٹ خریدے گئے ہیں وہ کے سی آر کے حق میں گئے ہیں۔

محمد علی شبیر نے کے سی آر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 2014میں پہلی بارکے سی آر ریاست کے چیف منسٹر بنے ۔اور مرکز میں نریندر مودی وزیر آعظم بنے۔نریندر مودی ’’نیتی آیوگ‘‘لائے۔سب سے پہلے کے سی آر نے نیتی آیوگ کی تائید کی۔جبکہ راجستھان کے بی جے پی کے چیف منسٹر ’’وسنت رائے‘‘نے نیتی آیوگ کی مخالفت کی، مگر کے سی آر مودی کا ساتھ دئیے۔پھر نوٹ بندی آئی،تلنگانہ کے چیف منسٹر نے ساتھ دیا۔جی ایس ٹی آئی ،تلنگانہ کے چیف منسٹر نے ساتھ دیا۔تین طلاق کا بل لایا گیا ،پارلیمنٹ سے بھا گ گئے۔

الغرض نریندر مودی کے ہر فیصلہ کی کے سی آر نے تائید کی۔اس لئے ہم کہہ رہے ہیں کہ ٹی آر ایس نریندر مودی کی بی ٹیم ہے۔اور یہ کو ئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔یہ عوام کو معلوم ہے۔اس لئے بد نامی اپنے سر آتے دیکھ کراب وہ بی جے پی کو گالیاں دے رہے ہیں۔اور وہاں جاکراُن کے پاؤں پڑ رہے ہیں۔