Saturday, May 18, 2024
Homesliderکوویڈ ۔19وبا کی آڑ میں بی جے پی حکومت عوام کے جمہوری...

کوویڈ ۔19وبا کی آڑ میں بی جے پی حکومت عوام کے جمہوری حقوق کو چھین رہی ہے۔ ایس ڈی پی آئی

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی۔۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کی قومی سکریٹریٹ اجلاس کا انعقاد گزشتہ 24ستمبر2020کو کیرلا کے تیرور شہر میں ہوا۔ اجلاس کی صدارت قومی صدر ایم کے فیضی نے کی۔ قومی نائب صدور اڈوکیٹ شرف الدین احمد، دہلان باقوی، جنرل سکریٹریان عبد المجید میسور، محمد شفیع، قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی اور سکریٹریٹ کے ممبران پروفیسر کویا، عبدالمجید فیضی،الیاس محمد تمبے، عبدالحنان اور عبدالستار موجود رہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے 7ماہ کے وقفے کے بعد منعقد ہوئے اس اجلاس میں ملک کی موجودہ سماجی و سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور مندرجہ ذیل5 قرار داد منظور کیا گیا۔ 1)۔مرکزی بی جے پی حکومت کوویڈ ۔19وبا کی آڑ میں جمہوری حقوق چھین رہی ہے۔ جب دنیا بھر کی ممالک کوویڈ 19وبائی بیماری کو ختم کرنے کی جدوجہد کررہی ہیں تو بی جے پی حکومت لاک ڈاؤن کے ذریعے پیدا ہوئے موقع کو استعمال کرتے ہوئے حکومت سے اختلاف رائے رکھنے والوں یا اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ہراساں کرنے اور فرضی مقدمات کے ذریعے ان کے بنیادی اور جمہوری حقوق سے انکار کررہی ہے۔

آرٹی آئی رضاکار اکھل گوگوئی پر بغاوت اور سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے، جبکہ بھیما کورے گاؤں کیس کے سلسلے میں آنند ٹیلٹمبڈے اور گوتم نولکھا اور 11دیگر افراد کو یواے پی اے اور این ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن بھیما کورے گاؤں تشددکے کلیدی سازش کاروں، آر ایس ایس کے کارکن سمبھاجی بھیڈے اور ملند ایکبوتے ابھی بھی آزاد ہیں۔ مسرت زہرا جو بین الاقوامی سطح پر مشہور فوٹو جرنلسٹ ہیں ان کو سری نگر میں معمولی وجوہات کی بنا پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اسی طرح طلباء کارکنان جیسے میران حیدر، صفورا زرگر، شفاء الرحمن، شرجیل امام، عمر خالد اور بہت سے دوسرے کارکنوں پر بھی یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس نے ابھی تک دہلی فسادات کے اصل مجرموں جیسے کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا ہے یا انہیں گرفتار نہیں کیا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے دوسرے بہت سارے رہنما آزادانہ گھوم رہے ہیں۔

لیکن سماجی کارکنان جیسے کنول پریت کور اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اور پولیس نے ان کے گھروں پر بھی چھاپے مارے ہیں۔ مودی حکومت قومی سلامتی کی آڑ میں سی اے اے، این آرسی، این پی آر کے خلاف تحریک کو ختم کیلئے صرف مسلمانوں اور ترقی پسند رہنماؤں کو نشانہ بنارہی ہے۔ایس ڈی پی آئی اپنے قرارداد میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ عوام دشمن قوانین استعمال نہ کریں۔ امن وامان اور گورننس کے نام پرا ختیارات کے ناجائز استعمال سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔2)۔بی جے پی حکومت زراعت کا قتل کررہی ہے۔ مرکزی بی جے پی حکومت نے صرف کارپوریٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے تین فارم بل 2020پاس کیے ہیں۔ اس کا مقصد سرمایہ داروں کیلئے زراعت کے شعبہ کا دروازہ کھولنا ہے اور کسانوں کے استحصال کی راہ ہموار کرنا ہے۔ بل APMCمارکیٹ سے باہر زرعی پیداوار فروخت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بل سے ایم ایس پی کا خاتمہ اور منڈی نظام تباہ ہوگا۔ اس بل میں ایم ایس پی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

ایس ڈی پی آئی کا مطالبہ ہے کہ ان بلوں کو مسترد کیا جائے اور حکومت کو بھی کسانوں اور ملک کے مفاد کیلئے ان کو منسوخ کرنا چاہئے۔ 3)۔ اتر پردیش میں لاقانونیت۔ اتر پردیش جو ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اپنے جرائم، عصمت دری، قتل، انتقام کی سیاست، طاقت کا غلط استعمال اور فرقہ وارانہ سیاست وغیرہ کی وجہ سے بدنام ہوگئی ہے۔ بلند شہر، ہاپور، لکھیم پوراور گورکھپور میں بار بار ہلاکتیں اور ہجومی تشدد کے واردات جاری ہیں۔ حال ہی میں غازی آباد میں ایک صحافی وکرم جوشی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیاتھا۔ یہاں تک کہ پولیس والوں کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ سال 2017میں 93پولیس اہلکار ہوئے تھے اور سال 2018میں 70پولیس اہلکاراپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ عصمت دری عام ہوچکی ہے۔ دلت خواتین کو زیادتی کا سب سے زیادہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر ایک دلت لڑکی کے ساتھ عصمت دری کرکے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ وزیر اعلی یوگی ریاست کی ترقی کے بجائے شہریوں کے تاریخی ناموں کو تبدیل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ عدم رواداری، نفرت اور انتقام ان کا شیوہ ہے۔ڈاکٹر کفیل خان کے گرفتاری کا واقعہ اور ان کا ہراساں کیا جانا اس کی ایک مثال ہے۔

یوگی کے ذریعے اسپیشل سیکورٹی فورس (یو پی ایس ایس ایف) کی تشکیل دیکر بغیر وارنٹ کی گرفتاری یا مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر گرفتاریوں کی اجازت دی گئی ہے جو پولیس کو اپنے طور پر کام کرنے کیلئے آزادانہ اختیار دے گی۔ ایس ڈی پی آئی صدر جمہوریہ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ مداخلت کریں اور اتر پردیش میں عوام کی حفاظت، امن وامان، جمہوریت اور سماجی انصاف کو یقینی بنانے کیلئے ضروری اقدامات کریں۔ 4)۔ نئی قومی تعلیمی۔ مرکزی بی جے پی حکومت کی طر ف سے پیش کی جانے والی نئی تعلیمی پالیسی میں اگرچہ ایسا لگتاہے کہ اس میں کچھ خوبی ہے۔لیکن حقیقت میں وہ تعلیم میں درجہ بندی اور عدم مساوات پیدا کرے گی اور دائیں بازو کے معاشی نظریات کی بازیافت کرے گی۔

تین زبانوں کی پالیسی میں غیر ہندی بولنے والے ریاستوں میں ہندی کو نافذ کرنے کا حربہ ہے۔ سرکاری اسکولوں کے طلباء کو علاقائی زبانوں میں پڑھایا جائے گا جبکہ نجی اسکولوں میں انگریزی میڈیم پڑھائے جانے سے مالدار اور عام لوگوں کے درمیان زبردست عدم مساوات پیدا ہوگا۔ 4سالہ ڈگری کورس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔نیا متعارف کرایا گیا 2سالہ ڈپلومہ طلبہ کی ڈگری مکمل کرنے سے حوصلہ شکنی کرے گا۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی این جی او ز کو اساتذہ کی ٹریننگ، تشخیص، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے احاطے میں سیکورٹی خدمات میں کلیدی کردار ادا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوگا کہ آر ایس ایس کے حمایت یافتہ ادارے سسٹم میں داراندازی کریں گے اور اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو نافذ کریں گے۔ مسخ شدہ تاریخی نصاب کا تعارف نوجوان نسل کے ذہنوں کو خراب کردے گا۔ پالیسی میں سیکولر اصولوں کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ ایس ڈی پی آئی کا موقف ہے کہ مرکزی حکومت تجاویز پر اعتراضات کے پیش نظر نئی قومی تعلیمی پالیسی (NEP)پر نظر ثانی کرے۔ 5)۔انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور آئینی حقوق سے انکار۔ ہمیشہ کی طرح مرکز اور ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں فرقہ وارانہ واقعات پیدا کرکے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔

اگلے انتخابات میں اقتدار برقرار رکھنے اور انتظامیہ میں اس کی مکمل ناکامیوں کو چھپانے کیلئے ہندوتوا گروپس ہندو جذبات کو پولا رائز کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔طلباء سماجی کارکنوں، انسانی حقوق کارکنوں، دلت اور مسلم رہنماؤں اور سی اے اے مخالف مظاہرین پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنا اقتدار کے غلط استعمال کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بنگلور میں بی جے پی نے فرقہ وارانہ فسادات کو بھڑکانے کیلئے ایک اشتعال انگیز کارٹون کا استعمال کیا۔ دہلی میں بی جے پی کئے ممبران اسمبلی اور رہنماؤں نے سنگھی کارکنوں کو مظاہرین کو گولی مارنے کی ترغیب دی۔ بھیما کورے گاؤں واقعات کا استعمال کرتے ہوئے حکومت نے لبرل مفکرین اور کارکنوں کو جیل میں بند کردیا ہے۔حکومت نے جموں وکشمیر کو ورچوئل جیل بنادیا ہے اور سیکورٹی فورسز شہریوں کو دہشت گرد قراردیتے ہوئے انہیں گولی ماررہے ہیں۔ اس صوبے میں 24گھنٹے کرفیو لگا ہوا ہے جس میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بے شمار واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کا مشاہدہ ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس منواد تسلط قائم کرنے کیلئے فاشسٹ اور نسل پرستانہ ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی عوام سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ متحد ہوجائیں اور ملک میں امن، خوشحالی اور کثرتیت کو بگاڑنے والی قوتوں کے خلاف متحد ہوکرلڑیں۔