Thursday, May 16, 2024
Homeدیگرنقطۂ نظرکیا عدالت عقیدہ کے دباؤ میں مفروضاتی مندر کی تباہی کی مذمت...

کیا عدالت عقیدہ کے دباؤ میں مفروضاتی مندر کی تباہی کی مذمت اور ایک نئی مندر کی تعمیر کے وجوب کو تسلیم کرسکتی ہے

بابری مسجد انہدام مقدمہ پر الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے تناظر میں بے باکانہ نقطہ نظر
- Advertisement -
- Advertisement -

عدالتی فیصلہ ایک سیاسی فیصلہ ہے اور عکاسی کرتا ہے کہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو برسوں قبل ہی حکومت کرسکتی تھی۔ یہ زمین پر قبضہ اور منہدم کردہ مسجد کی جگہ ایک نئی مندر کی تعمیرپر زور دیتا ہے۔ مسئلہ مذہبی تشخص کی حامل معاصر سیاسیات میں خلط ملط ہونے کا ہے مگرادعا تاریخی شواہد کی اساس پر بھی ہونا چاہئے۔ اس آخر الذکر پہلو کو بھی ملحوظ رکھا گیا مگر بعدازاں فیصلہ میں اس کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
عدالت نے یہ اعلان کیا کہ مخصوص جگہ وہی ہے جہاں الوہی و نیم الوہی فرد پیدا ہوئے اور جہاں یادگار پیدائش کے لئے ایک نیا مندر تعمیر کیا جائے۔ یہ ہندو عقیدہ و اعتقاد کی ایک اپیل کے ردعمل میں ہے۔ دعویٰ کی تائید میں عدم شواہد کے باوجود صادر کردہ فیصلہ ویسا نہیں ہے جس کی ایک عدالت سے توقع کی جاتی ہے۔ ہندو‘ راما کو نہایت ہی عقیدتمندانہ طور پر خدائی ہستی تصور کرتے ہیں لیکن کیا یہ ان کے پیدائشی مقام ہونے‘ زمین پر قابض ہونے اور زمین کو حاصل کرنے ایک بڑے تاریخی یادگار کو دانستہ طور پر منہدم کرنے کے ادعاجات پر ایک قانونی فیصلہ صادر کرنے کا جواز بن سکتے ہیں؟
فیصلہ یہ ادعا کرتا ہے کہ اس مقام پر 12 ویں صدی کا ایک مندر تھا جس کو مسجد تعمیر کرنے منہدم کردیا گیا۔ اس لئے ایک نئی مندر کی تعمیر کا جواز پیدا ہوگیا ہے۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی کھدائی اور اس کے مشاہدات کو من وعن قبول کرلیا گیا حالانکہ اس پر دیگر ماہرین آثار قدیمہ اور تاریخ دانوں نے سخت اعتراض کیا تھا۔ چونکہ یہ معاملہ پیشہ ورانہ مہارت کا ہے‘ جس پر شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے ایک نقطہ نظر کو غیر مشروط طور پر قبول کرلینا اور وہ بھی سہل پسندانہ انداز میں آیا فیصلہ پر اعتماد پیدا کرتا ہے؟ ایک جج بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے تاریخی پہلو کا تجزیہ نہیں کئے چونکہ وہ ایک تاریخ داں نہیں ہیں لیکن یہ کہتے ہیں کہ تاریخ اور آثار قدیمہ ایسے مقدمات کو فیصل کرنے میں مطلق لازم نہیں ہیں! باوجود اس کے جو مسئلہ ہے وہ ادعا جات اور الف صدی قدیم تاریخی ڈھانچوں کا تاریخی ہونا ہے۔
ایک مسجد تقریباً 500 برس قبل تعمیر کی گئی تھی اور جو ہمارے ثقافتی ورثہ کا حصہ رہی ہے اس کو ایک سیاسی قیادت کی آرزو پر ایک ہجوم کی جانب سے دانستہ طور پر منہدم کردیا گیا۔ اجمالی فیصلہ میں یہ تذکرہ تک نہیں ہے کہ اس چنچل اقدام تباہی اور ہمارے ورثہ کے خلاف جرم کی مذمت کی جانی چاہئے۔ نیا مندر اپنا تقدس رکھے گا کہ مسجد کے ملبہ کے علاقہ میں رام کی جائے پیدائش ہے ۔ جہاں مفروضاتی مندر کی تباہی کی مذمت کی گئی اور ایک نئی مندر کی تعمیر کے وجوب کو تسلیم کیا گیا وہیں مسجد کی تباہی کو نظر انداز کردیا گیا‘ شائد اسے بڑی آسانی سے کیس کے تناظر سے خارج کردیا گیا۔

آیا ایک نظیر قائم کی گئی

فیصلہ نے قانون کی عدالت میں ایک نظیر قائم کی ہے کہ خود کو ایک قوم کہلائے جانے والے کسی بھی گروپ کی جانب سے کسی زمین کے ان کی قابل پرستش کسی خدائی و نیم خدائی ہستی کی جائے پیدائش ہونے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے ۔ پھر جہاں کہیں قابل لحاظ جائیددا پائی جاسکتی ہے یا تنازعہ پیدا کرنا ہوتو اب کئی جنم استھان وجود میں آئیں گے۔ جب تاریخی یادگار کو دانستہ تباہ کئے جانے کی مذمت نہیں کی گئی تو پھر عوام کو دیگر مقامات کی تباہی سے کیا چیز روک سکتی ہے؟ مقام عبادت کی تبدیلی کے خلاف 1993 ء کی قانون سازی جیسا کہ ہم نے حالیہ برسوں میں دیکھا ہے غیر موثر بن جائے گی۔
تاریخ میں جو کچھ ہو ا ہوچکا۔ اس کو بدلا نہیں جاسکتا۔ لیکن ہم جو کچھ پیش آیا اس کو کامل سیاق و سباق میں سمجھنے اور قابل بھروسہ شواہد کی اساس پر اس کا جائزہ لینا سیکھ سکتے ہیں۔ ہم موجودہ سیاست کو واجبی ٹھہرانے ماضی کو بدل نہیں سکتے۔ فیصلہ نے تاریخ کی احترامیت کی تنسیخ کردی ہے اور مذہبی عقائد پر تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقی ازسر نو مصالحت اسی وقت ہوسکتی ہے جب یہ اعتماد پیدا ہوکہ اس ملک میں قانون اپنی بنیادیں عقائد و عقیدوں پر نہیں بلکہ شواہد پر رکھتا ہے۔