Monday, April 29, 2024
Homeدیگرنقطۂ نظرکیا یہ بچہ آپ کا ہے؟!

کیا یہ بچہ آپ کا ہے؟!

آفتاب احمد خان
کوئی بچہ آپ کے پاس رہتا ہے؟گھروں میں موجود بچے بظاہر تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن درحقیقت وہ اغواء ہو چکے ہیں۔آپ کے بچے آپکی گود میں ہونے کے باوجود تہذیبِ مغرب کی آغوش میں قید ہیں۔عالم کفر دروازے توڑ کر اور دیواریں پھلانگ کر آپ کے گھروں میں گھس کر آپ کے بچے اغواء کر رہا ہے ۔آپ کا ٹی وی اور دیگر اسکرینیں اور تعلیمی نظام آپ کے بچوں کے دماغوں پر قبضہ کر رہے ہیں ۔ان کے دلوں کو سیاہ اور پراگندہ کیا جارہا ہے۔ان کے کان اور آنکھیں حیا سے عاری اور مادر پدر آزاد بنائی جا رہی ہیں۔گویا ان کے اعضاء کاٹے جا رہے ہیں ۔اب یہ صرف مسخ شدہ لاشیں ہیں ۔بچوں کا چہرہ سامنے ہونا ہی ان کا موجود یا محفوظ ہونا نہیں کہلاتا۔آپ کی بیٹی کے سر سے دوپٹہ سرک کر بدن سے بھی جان چھڑا رہا ہے ۔وہ اب یہ بوجھ برداشت نہیں کرپاتی ۔وہ گھر چلانا اور گھر بنانا چھوڑ رہی ہے وہ باہر کی دنیا میں انٹر یسٹیڈ ہوگئی ہے ۔پھر بچے ہونے کے باوجود مائیں بے اولاد کر دی گئی ہیں اور آج کی بیٹی کل کی ماں بننے کے لائق نہیں چھوڑی جا رہی ہے۔اسے ذہنی و جسمانی طور پر بانجھ کیا جا رہا ہے۔ہم بچوں کو اپنے ہاتھوں سے بھاری فیس دے دے کر اس تہذیب کے حوالہ کر رہے ہیں ۔وہ تہذیب کہ جس نے آپ سے آپ کا خالق چھینا اور آپ کی آنے والی نسلیں بھی ۔یہ بچے نہیں اگلی نسل کے والدین اغواء ہو رہے ہیں ۔اور یہ اغواء شدہ بچے کل کو کس طرح کے ماں باپ ہوں گے؟اس کا تصور بھی بھیانک ہے ۔جب تربیت کا پہلا مدرسہ ماں ہی اڑا دیا جائے ۔باپ کو بے حیا و آزاد کردیا جائے تو اسے کہتے ہیں کڈنیاپنگ اور یہ ہوتے ہیں اصل مسنگ پرسسنز،جنہیں اٹھا لیا جائے جو دوبارہ نظر نہ آئیں اور چند روز بعد جن کی مسخ شدہ لاش ملے ان پر تو پھر بھی صبر آسکتا ہے ۔لیکن جب نسلیں اغواء ہوجائیں ۔جو نظروں کے سامنے ہوکر بھی کسی اور کی پیروکار ہوں تو فکر ہونی چاہیے ۔یہ فکر ابھی کیجیے اور جان رکھیں کہ جو آپ کے پاس ہے ، وہ آپ کے ساتھ نہیں۔