Friday, May 17, 2024
Homeٹرینڈنگکیجریوال کی شاہین باغ سے دوری کب تک

کیجریوال کی شاہین باغ سے دوری کب تک

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔دہلی کے رام لیلامیدان میں اروند کیجریوال کی چیف منسٹر کے عہدے کی حلف برداری دیکھ کر شاید بی جے پی کے خیمہ ماتم کدہ میں تبدیل ہوا ہوگا اور خاص طور پر امیت شاہ کی کیفیت اس نامراد عاشق سے ہوئی ہوگئی جس کی محبوبہ کی شادی کسی اور نوجوان سے ہوتی ہوکیونکہ امیت شاہ نے دہلی کا اقتدار حاصل کرنے کےلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگادیا تھا لیکن ان کے آنکھوں کے سامنے حریف کیجریوال اقتدار کی کرسی پر بیٹھ گئے  ۔ جس کیجریوال کو روکنے کے لیے اسے دہشت گرد تک قرار دیا گیا، پولیس کا استعمال اپنے مفاد کے لیے کیا گیا، الیکشن کمیشن کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا گیا، کشمیر کے آرٹیکل 370 سے لے کر پاکستان تک کو انتخابی موضوع بنایا گیا۔ ای وی ایم کے بٹن سے شاہین باغ کو کرنٹ لگانے کی اپیل کی گئی، غداروں کو گولی مارنے کے نعرے لگوائے گئے یہاں تک کہ بی جے پی کے شکست کھانے کی صورت میں دہلی والوں کے گھروں میں شاہین باغ کے لوگوں کو گھسا کر ان کی بہو بیٹیوں کو اٹھا لیجانے اور عصمت دری کرنے کا خوف تک دلایا گیا لیکن یہ سب کوششیں اور سازشیں سب دھری کی دھری رہ گئی۔ وہی کیجریوال تیسری مرتبہ دہلی کے چیف منسٹر کی کرسی سنبھالی ہے تو ظاہر ہے کہ اسے روکنے والوں کے یہاں ماتمی کیفیت ہوگی ہی۔

دہلی انتخابات میں بی جے پی کی شکشت کے بعد امیت شاہ نے اعتراف کیا کہ پاکستان، کشمیر وشاہین باغ جیسے موضوعات کی وجہ سے ان کی پارٹی کو شکست ہوئی ہے۔ اس میں کس حد تک سچائی ہے اس کا تجزیہ تو بڑے بڑے انتخابی ماہرین ہی کریں گے، لیکن یہ ضرور سچ ہے کہ اس انتخاب کو جیتنے کے لیے بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔ دہلی ایک مکمل ریاست نہیں بلکہ نصف ریاست ہے۔ کیونکہ اس کا نصف اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہے۔ اپنے پاس نصف اقتدار رکھتے ہوئے باقی نصف اقتدار کو جیتنے کے لیے بی جے پی نے ہر وہ جتن کی جو کسی بڑی سے بڑی ریاست کو جیتنے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ دولت، طاقت، سازش، فرقہ پرستی  کا ایسا کوئی پہلو نہیں تھا، جو استعمال نہ کیا گیا ہو۔

سب سے پہلے تو امیت شاہ نے اس انتخابی مہم کو عملاً اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ انہوں نے تنہا 66 ریلیاں کیں، پورے ملک سے دو سو سے زائد اپنی پارٹی کے ممبرانِ پارلیمنٹ ومرکزی وزراءکو دہلی کی گلی کوچوں میں تعینات کیا۔ 8 ریاستوں کے چیف منسٹرس کو دہلی طلب کرکے ان سے ریلیاں کروائیں گئی۔ اترپردیش کے چیف منٹسر یوگی نے چاردنوں تک دہلی میں ڈیرہ ڈالے رہے اورکیجریوال پر شاہین باغ میں بریانی کھلانے کا شوشہ چھوڑا۔ ان سب کے باوجود اگر دہلی میں بی جے پی ہار گئی تو یہ کوئی معمولی ہار نہیں بلکہ یہ ایک ایسی ہار ہے جس کی گونج بہار و بنگال تک سنائی دے گی۔

یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ اب بی جے پی محض دو لوگوں میں سمٹ چکی ہے۔ ایک مودی اور دوسرے امیت شاہ۔ پہلے یہ ڈھائی لوگوں کی پارٹی تھی لیکن جیٹلی کے دنیا سے جانے کے بعد اب یہ محض دو لوگوں کی پارٹی بن گئی۔ اس میں پہلے نمبر کا حال یہ ہے کہ جب اس نے یہ محسوس کیا کہ اس کے ترکش کے تمام تیر ضائع ہو رہے ہیں اور دہلی میں کامیابی کا امکان نہ کے برابر ہے تو اس نے اپنی دو ریلیوں کے بعد ہی خاموشی اختیار کرلی لیکن دوسرے نمبر کے صاحب کو اپنی کامیابی کا بہت زیادہ گمان تھا۔ ووٹنگ کے بعد ان کی پارٹی کے دہلی کے سربراہ نے تو یہاں تک دعویٰ کردیا تھا کہ وہ 48 سیٹیں جیت رہے ہیں۔ خود بی جے پی کے اندرون خانہ یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جارہی تھی کہ اس بار45 کے پار پہنچنے والے ہیں۔ ان سب دعوں کے باوجود اگر پوری پارٹی 8 تک سمٹ جائے تو یہ اس زعم کی ہار کے ساتھ اس چانکیہ کی بھی ہار ہے جس کے بارے میں رام مادھو نے کرناٹک میں حکومت سازی کی کوششوں کے دوران کہا تھا کہ میرے پاس امیت شاہ ہے ، اس لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دہلی میں بی جے پی کی شکست سے سب سے زیادہ نقصان امیت شاہ کا ہوا ہے کیونکہ ان کی چانکیہ ہونے کی جو شبیہ گزشتہ 6 سال سے بی جے پی تیار کرنے میں لگی ہوئی تھی، وہ اب ختم ہوگئی۔

اب جبکہ اروند کیجریوال تیسری مرتبہ چیف منسٹر بن چکے ہیں، تو انہیں سب سے پہلے بی جے پی و دیگر پارٹیوں کے ذریعے قائم کیے گیے اس تصور کو توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اگر کوئی پارٹی یا لیڈر مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو وہ ہندو عوام سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی تصور کے تحت الیکشن کے ایام میں اروند کیجریوال شاہین باغ نہیں گیے اور وہی نہیں بلکہ بی جے پی وکانگریس کا بھی کوئی لیڈر نہیں گیا۔ بی جے پی والے بار بار اروند کیجریوال کو شاہین باغ جانے کے لیے للکارتے رہے لیکن وہ خود بھی نہیں گئے۔ کیجریوال کا اس کے بارے میں یہ جواب تھا کہ چونکہ شاہین باغ کا احتجاج مرکزی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کے خلاف ہے، اس لیے مرکزی حکومت کے کسی ذمہ دار کو وہاں جانا چاہیے لیکن شاہین باغ ہی نہیں بلکہ پوری دہلی کے عوام یہ اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ بی جے پی یا عام آدمی پارٹی کا کوئی لیڈر شاہین باغ کیوں نہیں جا رہا ہے۔ اس کی واضح وجہ یہ تصور ہے کہ جو بھی لیڈر یا پارٹی مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوگی وہ ہندووں سے دور ہوجائے گی۔ کیجریوال کا دعوی ہے کہ ان کی سیاست ملک میں قائم کیے گیے سیاسی مفروضوں سے آگے کی سیاست کرتی ہے تو انہیں اب شاہین باغ جاکر اس مفروضے کو توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

یہ اس لیے بھی کہ سیاسی پارٹیوں کے ذریعے بنایا گیا مذکورہ بالا مفروضہ دراصل اس ملک کے اکثریتی طبقے کی راست توہین ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک کے ہندو اس قدر عدم تحمل کے شکار ہیں کہ وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو برداشت نہیں کریں گے اور وہ ہمدردی کے جذبے سے بالکل خالی ہیں۔ اس مفروضے سے ملک کے اتحاد و یکجہتی کا جس قدر نقصان ہو رہا ہے، اسی قدر یہ مفروضہ اپنی جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے۔