Sunday, May 19, 2024
Homesliderکے سی آر کو جی او 111 ختم کرنے کےخلاف سپریم کورٹ...

کے سی آر کو جی او 111 ختم کرنے کےخلاف سپریم کورٹ جانے کی  دھمکی

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد۔ حیدرآباد میں دو آبی ذخائر کے تحفظ کے لیے حکومتی حکم نامے کو منسوخ کرنے کے لیے حکومت تلنگانہ کے مجوزہ اقدام نے نہ صرف ماہرین ماحولیات اور شہریوں کو ناراض کیا ہے بلکہ راجندر سنگھ جو واٹر مین آف انڈیا کے نام سے مشہور ہیں، انہوں نے تنقید بھی کی ہےاور  سپریم کورٹ جانے کی دھمکی دی ہے۔ماہرین ماحولیات اور سبز کارکنوں نے حکومت کو عثمان ساگر اور حمایت ساگر کے کیچمنٹ علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیوں پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کے تباہ کن اقدام کے خلاف خبردار کیا ہے۔

راجندر سنگھ نے کہا کہ وہ ریاستی حکومت کی جانب سے گورنمنٹ آرڈر (جی او)  111 کو منسوخ کرنے کے اقدام کا اعلان کرنے والی دل دہلا دینے والی خبروں سے پریشان ہیں۔سنگھ جو جل بیراداری کے چیئرمین ہیں انہوں  نے تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ سے درخواست کی کہ وہ جی اور 111 کو منسوخ کرنے سے گریز کریں جس کا مقصد جڑواں آبی ذخائر کے 10 کیلو میٹر کے دائرے میں تعمیرات کو روکنا ہے۔یہ بتاتے ہوئے کہ دونوں آبی ذخائر نہ صرف حیدرآباد بلکہ پوری قوم کا فخر ہیں، انہوں نے کہا کہ جی او کو منسوخ کرنا آئین اور سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تلنگانہ کے چیف منسٹر اس اقدام کو ترک کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع ہونے پر مجبور ہوں گے۔

باوقار میگسیسے ایوارڈ اور سٹاک ہوم واٹر پرائز کے فاتح نے اپنا غصہ ٹویٹر پر شیئر کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ تلنگانہ جس نے حال ہی میں دریاؤں پر ایک قومی کنونشن کی میزبانی کی تھی وہ جی او 111 کو منسوخ کررہا ہے۔ یہ قانون اور فطرت کے خلاف ہے ۔چیف منسٹر نے منگل کو اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ ماہرین کی کمیٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد حکومت جلد ہی جی او کو اٹھا لے گی۔سنگھ نے کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ حکومت کے مقصد کے مطابق بنائی جائے گی نہ کہ آبی ذخائر کی حفاظت کے لیے اپنے حقائق پیش کرے گی۔انہوں نے یاد دلایا کہ 8 مارچ 1996 کو یہ جی او جاری کیا گیا تھا تاکہ باوقار حمایت ساگر اور عثمان ساگر کے کیچمنٹ علاقوں کی حفاظت کی جا سکے جو کہ جڑواں شہروں حیدرآباد اور سکندرآباد کی ترقی کی وجہ ہے۔

یہ دونوں آبی ذخائر ستمبر 1908 کے تباہ کن سیلاب کے بعد نظام حیدرآباد کے ذریعہ موسٰی ندی کے پار بنائے گئے تھے جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ دونوں آبی ذخائر جڑواں شہروں کے لیے پینے کے پانی کا اہم ذریعہ تھے۔کے سی آر جیسا کہ کہا کہ جی او بے کار ہوگیا کیونکہ دونوں آبی ذخائر اب پینے کے پانی کے ذرائع نہیں رہے کیونکہ حیدرآباد کو کرشنا اور گوداوری ندیوں سے پائپ کے ذریعے پانی کی سربراہی  ہورہی ہے۔واٹر مین آف انڈیا نے بتایا کہ جی او 84 گاؤں اور سات منڈلوں میں 1.32 لاکھ ایکڑ پر محیط ہے۔ جی او کو منسوخ کرنے کا مطلب دو جھیلوں کی حفاظت کے لیے ڈھال کو ہٹانا ہے اور یہ سپریم کورٹ اور نیشنل گرین ٹریبونل کے متعدد فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔

سنگھ نے کہا اگر کے سی آر چاہیں تو وہ ان 84 گاؤں کے لوگوں کو کیچمنٹ ایریا سے منتقل کر سکتے ہیں اور باوقار حمایت ساگر اور عثمان ساگر جھیلوں کے لیے کیچمنٹ ایریا کو آزاد رکھ سکتے ہیں، اس طرح وہ دیگر وزرائے اعلیٰ کے لیے رول ماڈل بن سکتے ہیں۔کے سی آر کے اس دعوے پر کہ حیدرآباد کو اگلے 100 سالوں تک پانی کی مناسب فراہمی ہوگی، راجندر سنگھ نے کہا کہ یہ ان جھیلوں میں مصنوعی طور پر ڈالے گئے پانی کی بنیاد پرنہیں کہا جاسکتا۔ سنگھ نے کہا اس کے علاوہ آئین ہند کے آرٹیکل 48-Aکے تحت بھی ریاست قدرتی وسائل کے تحفظ اور بہتری کےلیے آئینی طور پر پابند ہے، وہ اس سے بچ نہیں سکتی ۔

یاد رہے کہ جی او 111 کو فضائی آلودگی کی وجہ سے جھیلوں میں تیزابیت کو روکنے اور ممنوعہ زون میں صنعتوں کے قیام کو روکنے کے لیے لایا گیا تھا۔ ماہر ماحولیات ڈاکٹر سبھا راؤ کے مطابق اس کے مقاصد پائیدار آبی وسائل کے انتظام کو یقینی بنانا تھے۔یہ ذخائر ملک کے واحد صفر توانائی والے پانی کی تقسیم کے نظام کا حصہ تھے، جہاں ذرائع سے پانی نہیں نکالا جاتا تھا، اور اس وجہ سے وہ مکمل طور پر موسمیاتی تبدیلی کے موافقت میں شامل ہو گئے تھے۔