Thursday, May 16, 2024
Homeدیگرنقطۂ نظرہندستان سے مسلمانوں کا کیسے صفایا کیا جائے؟

ہندستان سے مسلمانوں کا کیسے صفایا کیا جائے؟

اداریہ : دلت وائس:16-31 مئی 1999
مسلمانوں نے اندلس (موجودہ اسپین) پر 712 تا 1492 عیسوی تک 780 برس حکمرانی کی، باوجود اس کے اسپین میں آج مسلمان نہیں ہیں اگرچہ اسپینی زندگی کے ہر پہلو پر اسلام کی ایک چھاپ ہے۔ اسپینی زبان میں کئی عربی الفاظ ہیں، اس کی موسیقی میں ایک عربی لے ہے، اس کی ثقافت پر یورپ سے زیادہ عربی اثر ہے اور اسپینی ناموں میں اکثر عربی لاحقہ ’ال‘ ہوتا ہے۔ 1492 ء سے جب مسلم سیاسی قوت کے آخری گڑھ کا سقوط ہوا ، اسپین کے مسلمانوں کی تعداد گھٹتی چلی گئی اور ان کا صفایا 120 برسوں بعد اس وقت ہوا جب جفا کش مسلمانوں کے آخری جتھے نے 1612 ء میں اسپین کوخیر بادکر دیا۔ اس برس سے اسپینی افق سے اسلام اوجھل ہوگیا۔

- Advertisement -
- Advertisement -

ایک خاص قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اسپین سے اسلام کی زوال پذیری کی اس مدت کے دوران ، ساری مہذب دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ عثمانی ترکوں نے 1553 ء میں قسطنطنیہ کو فتح کرلیاتھا ، اور سارے جزیرۂ نما بلقان پر حکمرانی کررہے تھے، مصر پر طاقتور خاندان غلامان کی حکمرانی تھی، ایران‘ عباسی حکمرانوں کے تحت اپنے سیاسی عروج پرتھا اور ہندستان پر مغلوں کی بادشاہت تھی۔ اس کے باوجود اسپین سے اسلام کا صفایا کردیا گیا اور ان عظیم مسلم افواج میں سے کسی نے بھی اسپین کے مسلمانوں کے تحفظ کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔’اسپین سے کس طرح اسلام کو خارج کیا گیا‘، اس صدی کے 30 ویں اور 40 ویں دہے میں ہندستان کے ہندو نازیوں کے عمیق مطالعہ کا ایک موضوع رہا تھا۔انہوں نے ہندستان میں اسی منظر نامہ کو دہرانے کی منصوبہ بندی کی اور اس امکان کو روکنے ، مسلم قائدین نے بھی اسپینی ہتھکنڈوں کے اعادہ سے بچاؤ کے لئے اس کا مطالعہ کیاچونکہ مسلمان (جو1981 مردم شماری کے مطابق آبادی کا 11.35% ہوتے ہیں) ہندستان کی واحد بڑی اقلیت کے طور پر ہندؤں کے اونچے طبقہ کے لئے بڑا سردرد بن چکے ہیں۔ لیکن عصر حاضر کے مسلمان ، اسپین میں اسلام کے زوال کی تاریخ اورنتیجتاً ان کے گرد رچائی جانے والی سازش سے بالکلیہ ناواقف ہیں۔
اس کے ذریعہ ہم اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمانوں کا متفکر طبقہ اور ان کے ہمدرد اس موضوع پر مزید کچھ تحقیق کرپائیں ۔ ہندستان کی ہی طرح اسپینی مسلمان تین زمرے رکھتے تھے۔ (1) اصل عربوں کی نسل (2) عرب باپوں اور اسپینی ماؤں کی نسل اور (3) عیسائیت ترک کرکے اسلام قبول کرنے والے۔ سقوط غرناطہ کے فوری بعد اصل عربوں کی اکثریت اپنی جانوں کو بچانے (جائیداد کو بچانے نہیں ، کیونکہ انہیں اپنی دولت ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں تھی) اسپین چھوڑ کر تیونس اور مراقش کا رخ کیا؛ عیسائی لشکروں کے حملوں میں سفر کے دوران ہی ان میں سے کئی ہلاک ہوگئے۔ مابقی اصل عرب جنہوں نے اسپین میں ہی بسے رہنے کا فیصلہ کیا تھا انہیں بعدازاں غیر ملکی (جیسا کہ ہندستان میں کیا جاتا ہے)اور اسپین کے غارت گر قرار دیا گیا۔ مسلمانوں کا دوسرا گروہ یعنی مسلم باپوں اور اسپینی ماؤں کی نسل اور عیسائیت ترک کرکے اسلام قبول کرنے والوں نے شاہ فرڈیننڈکے اس اعلامیہ پر اعتبار کرتے ہوئے کہ کامل مذہبی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے‘ اسپین میں ہی بسے رہنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ (ہندستان میں بھی ہم سے کہا گیا کہ مسلمان کامل مذہبی آزادی اور حقوق اقلیت سے استفادہ کرپائیں گے)۔ابتدائی برسوں کے دوران ان کی جانوں اور املاک پر عیسائیوں کے حملوں کو عارضی واقعات کے طور پر گوارہ کرلیا گیا۔
اس کا موازنہ تقسیم ہند ( 1947 ) کے بعد ہندستان میں ہونے والی تبدیلیوں سے کیا جائے۔ لیکن اسپین میں مسلمانوں کی جان و مال پر کئے گئے یہ حملے مدھم نہیں پڑے بلکہ وقفے وقفے سے کم شدت کے ساتھ تقریباً 50 برسوں تک جاری رہے‘ بالکل ویسے ہی جیسے آج ہندستان میں وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ ابتدائی برسوں میں، ہندستانی مسلمانوں نے مزاحمت اور سامنا کیا۔ گلیوں میں خفیف جنگ و جدل ہوتے رہے، لیکن بتدریج یکطرفہ حملے ہونے لگے اور ہر وقت مسلمان شکست خوردہ رہے۔ حالیہ دنوں میں ہندو پولیس نے ہندستان میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔
منظم عیسائی گروپس جہاں اس طرح کا قتل عام کررہے تھے وہیں فرڈیننڈ کی حکومت ، اسپین میں خدمات سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی پالیسی کو اخیتار کیا اور درج ذیل اقدامات کئے:
نظم و نسق سے عربی زبان کو ترک کیا،
مساجد سے منسلک مدارس کو نصابی اور عمومی مضامین جیسے سائنس، تاریخ، ریاضی اور فلسفہ کی تدریس سے باز رکھا گیا، صرف مذہبی تعلیم ہی دی جاسکتی تھی۔ تاریخ کے مضامین بناوٹی تھے جن کے ذریعہ مسلم حکمرانی کو بربریت پر محمول کیا گیا۔ اسپین کی ترقی میں مسلمانوں کی حصہ داری کو تسلیم کرنے سے احتراز کیا گیا۔
ہتھیار چھپائے رکھنے اور خفیہ اجلاس کرنے کے الزامات کی آڑ میں پولیس کی جانب سے مسلمانوں کے گھروں کو مستقل تلاشی کا نشانہ بنایا گیا۔
اصل عرب مسلمانوں کو عیسائیوں کے دشمنوں اور اسپین کے غارت گروں کے طور پر نمایاں کیا گیا۔
عیسائیت ترک کرنے والوں کو یہ باور کرواتے ہوئے کہ ان کے اجداد کو جبراً مسلمان بنایا گیا تھا دوبارہ عیسائیت قبول کرلینے کی ترغیب دی گئی ۔اورقائل کروایا گیا کہ اب کوئی جبر نہیں ہے اس لئے انہیں عیسائیت میں واپس آجاناچاہئے۔
وہ مسلمان جو مسلم عیسائی نسب سے تھے حرامی قرار دئیے گئے اور استہزاء کا شکار بنائے گئے اورانہیں بھی عیسائیت کو قبول کرلینے کی ترغیب دی گئی۔
اسلامی طریقہ کے مطابق انجام پانے والے نکاحوں کا عدالتی حکام کے پاس اندراج کروانے کی ہدایت دی گئی۔
اسلامی شریعت کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اسپین میں اختیار کردہ ہر حربے کا ہندستان میں اکملیت اور موزوں وقت پر تجربہ کیا گیا۔
اس طرح اسپین میں مسلمانوں کو تضحیک و تذلیل اور مسلسل حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کی معیشت کو تباہ کرنے ان کے گھروں اور دکانات کو نذرآتش کئے جانے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔مسلمانوں کی دوبارہ عیسائیت قبول کرلینے کی جھوٹی تقریبات منعقد کی گئیں اور ان کی تشہیر کی گئی۔ہندستان میں ، تمام رنگوں کے ہندو نازی ۔آریہ سماج، راماکرشنا مشن، وشوا ہندو پریشد وغیرہ وہی سب کچھ کررہے ہیں۔ اسپینی مسلمانوں کی پہلی دو نسلوں نے مساجد اور گھروں میں اپنے بچوں کو عربی سکھاتے ہوئے اور انہیں زبانی طور پر حقائق بتلاتے ہوئے اپنے دین کو بچانے کا بے مزاحمت طریقۂ کار اختیار کیا تھا لیکن بتدریج وہ اپنی حمیت کھوتے چلے گئے۔ جب صرف سرکاری ایجنسیوں کے توسط سے ہی شادیاں انجام دئیے جانے کا حکم دیا گیا تو ابتدائی مراحل میں مسلمانوں نے متوازی طور پردونوں طریقوں پر شادیاں کیں۔ایک سرکاری حکام کے ساتھ اور پھر دوبارہ اپنے گھروں میں اسلامی انداز میں۔ بتدریج دوسری تقریب کو ترک کیا جانے لگا چونکہ اس نوعیت کی خانگی تقریب بھی ممنوع قرار دے دی گئی۔
اس مدت کے دوران ، مسلم عوام بتدریج مسلم قیادت کی گرفت سے آزاد ہوگئے اور مسلم اشرافیہ ، ترکی، تیونس ، مراقش اور مصر کی سمت کوچ کرنا شروع کردیاجہاں انہیں ہمدردی کے ساتھ قبول کرلیا گیا۔غریب مسلم اکثریت کو بے محفوظ چھوڑ دیا گیا۔ ہندستان میں بالکل ایسا ہی کچھ ہورہا ہے۔ متمول، انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان ‘برہمنیت اختیار کررہے ہیں۔ وہ اعلیٰ ذات کے ہندؤں کے مقلد بن گئے ہیں جیسا کہ وہ مسلم علاقوں میں نہیں بلکہ ہندو علاقوں میں رہنے لگے ہیں۔ غریب مسلمان (جو مسلمانوں کی آبادی کے 95% ہیں) باڑوں میں رہتے ہیں اور اسلام کے بہتر پیرو ہیں، انہیں بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ اس طرح وہ مخالف مسلم فسادات میں مارے جارہے ہیں۔
اسپین میں ابتدائی نصف صدی میں بوئے گئے بیجوں کی دوسرے نصف میں فصل پک گئی اور اس کے نتائج برآمدہونا شروع ہوگئے۔ وہاں کوئی سیاسی قیادت نہ رہی، مسلمانوں کا تحفظ کرنے تنظیمیں اور صورتحال کو بچانے روشن ضمیر شخصیتیں نہ رہیں۔مذہبی رہنما ؤں نے جوذرا بھی ادراک نہ رکھتے تھے سوائے اسلامی علوم کے‘ صورتحال کو بچانے اپنے طور پر ممکنہ کوشش کی لیکن سرکاری ایجنسیوں کے زبردست پروپگنڈہ ،تبدیلی مذہب پر لالچ اور پیشکش ، اکثریت کا اسلامی اقدار سے تغافل اورعام مسلمانوں میں جاگزیں احساس کمتری کے مقابل علمائے دین کی جانب سے بڑی قوت نہیں لگائی گئی۔ اس کیلئے جوابی کارروائی کرنے ایک سیاسی قیادت اوراسلحہ سے لیس تنظیم کی ضرورت تھی ، لیکن وہاں کچھ نہ تھا۔ جولوگ ترکی اور مصر کی مسلم طاقتوں کی مدد طلب کرنے کی باتیں کیا کرتے تھے وہ خوفزدہ تھے اور حکام کے سامنے (خود مسلمانوں کی جانب سے ) بے نقاب کردئیے گئے ۔ رضا کارمبارز کے بغیر دیگر مسلم طاقتیں مدد نہیں کرسکتی تھیں۔ جو ترکی اور مصر میں بس چکے تھے انہوں نے حکام کو مشورہ دیا کہ وہ اس طرح کی سوچ سے باز رہے بصورت دیگر اسپین کے مسلمانوں پر مظالم میں اضافہ ہوجائے گا۔ ایک احمد شاہ ابدالی کی ضرورت تھی مگر وہاں ویسا کوئی نہ تھا۔ اور مسلمانوں کی اکثریت اسپینی طرز زندگی کے ’اصل دھارے‘ میں شامل ہوگئے اور ملّا ؤں کو تدریس کے لئے کوئی ملازمت نہیں مل رہی تھی لہذا وہ بتدریج اسپین چھوڑ نے لگے ۔ اور 1612 ء میں اسپین چھوڑنے والا آخری جتھا جفا کش ملّاؤں پر مشتمل تھا۔
ہندستان میں بھی مسلمانوں کی قیادت، اعلیٰ ذاتوں کی زیر قیادت ہندو پارٹیوں کا دم چھلہ بن گئی۔ صرف دینی قیادت نے جیسے مولانا حسن علی ندوی نے ہندستانی مسلمانوں کے ثقافتی تشخص کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
اس ’اسپینی تجربہ‘ کو عظیم تر توانائی اور استعداد کے ساتھ ہندستان میں آزمایا جارہا ہے۔ اردو جو ہندستان میں ویسے ہی اسلامی ہے جیسے اسپین میں عربی تھی، ختم کی جارہی ہے۔ مسلم رضاکارانہ طور پر مدرسے چلارہے ہیں۔ انگریزی تعلیم یافتہ متمول مسلمان ، مسلم اکثریت سے کنارہ کش ہیں۔ ہم نے یہ تبلیغی جماعت عالمی کانفرنس منعقدہ بنگلور ( /15 مارچ 1985 ) میں دیکھا۔ وہ مسلم ممالک کو نہیں جارہے ہیں لیکن اپنے عضویاتی و طبعی خلوت میں پناہ لے رہے ہیں ۔ مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے انہیں منظم کرنے کی کسی بھی پہل کو فرقہ پرستی پر محمول کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی مسلم تحریک جو اعلیٰ ذاتوں کی حمایت نہیں کرتی’مسلم قوم پرست‘ قرار دے دی جاتی ہے۔عام مسلمانوں اور تعلیم یافتہ متمول مسلمانوں کے مابین خلیج دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام کو مسلم قیادت کی جانب سے ہی فطری امر تصور کیا جانے لگا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی پلیٹ فارمس پر جب کبھی اس کو اٹھایا جاتا ایسی کارروائیوں کو ہندستان کے داخلی امور میں مداخلت گردانا جانے لگا ہے۔ نصاب سے مسلمانوں کی تاریخ کو حذف کیا جانے لگا ہے۔ ہندستان کے لئے جان دینے والے مسلمانوں کے ذکر سے احتراز کیاجانے لگا ہے۔ ٹیپو سلطان جیسے عظیم شہید جنہوں نے ہندستان کے لئے اپنی جان دی ، نوجوانوں کے لئے غیر معروف ہیں، جبکہ تانتیا ٹوپے جنہوں نے ہندستان کے لئے نہیں بلکہ اپنے وظیفہ کے لئے جدوجہد کی تھی اور جھانسی لکشمی بائی جنہوں نے اپنے متبنیٰ بیٹے کو سلطنت کی جانشینی دلانے جنگ کی ان کے نام ہر ہندستانی کے ہونٹوں تک پہنچا دئیے گئے۔سائنس، طب، موسیقی، فنون لطیفہ میں گراں قدر خدمات یا بہادری پر کوئی بھی مسلمان ایوارڈ نہیں پاتا۔ حتیٰ کہ حکمراں کانگریس پارٹی کے عہدے رکھتے ہوئے ملک کیلئے لڑنے والوں جیسے مولانا آزاد، قدوائی، سید محمود، ہمایوں کبیر وغیرہ کے نام پر کوئی سڑک یا عمارت معنون نہیں ہوتی لیکن ہمارے شہروں اور بستیوں میں نصف درجن سے زائد اعلیٰ ذاتوں کے قائدین سے معنون ہوتی ہیں ۔ تاریخ از سرنو رقم کی جانے لگی ہے ۔ ( ہندستانی تاریخ کی تحول تخدیع ‘Falsifying Indian History’ اداریہ /16 اپریل1985 )۔مسلمان روزانہ ہلاک کئے جانے لگے ہیں اور ان کی دکانات جلائی جانے لگی ہیں۔ فوج، پولیس اور انتظامیہ کے دروازے ان پر بند کردئیے گئے۔ اور ہنوز اسلام کو بچانے مسلم تنظیمیں مشروم کی طرح وجود میں آرہی ہیں۔ ہر کوئی اسلام بچانا چاہتا ہے اور کوئی بھی مسلمانوں کا تحفظ کرنا نہیں چاہتا۔ ہم بالیقین متشوش ہیں۔
حکمراں طبقہ کا ایک مطالعہ انکشاف کرتا ہے کہ ان کے اور فرڈیننڈ اور ایزابیل کے اختیار کردہ حربوں میں بہت زیادہ یکسانیت پائی جاتی ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ بیسیویں صدی میں اقوام متحدہ کے قابل مشق حقوق انسانی منشور کی عائد کردہ تحدیدات کے باعث ہندؤں کی اعلیٰ ذاتیں زیادہ زیرک اور عیار ہیں۔
منظم اور یومیہ مخالف مسلم فسادات کے نتیجہ میں جان و مال کا ضیاع ہے، اور سب سے بڑھ کر ہر مسلمان کے دل میں خوف کا پیدا کرنا، افواج، نیم فوجی دستوں اور پولیس فورسس سے جرار مسلمانوں کا اخراج، سرکاری خدمات اور عوامی اداروں میں تقررات کے دروازوں کی مسدودی ، تعلیم، ذرائع ابلاغ جیسے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اشتہارات کی برہمنیت زدگی ، موجودہ دور کی ریاستوں پنجاب، ہریانہ ، اترپردیش، بہار ، مدھیہ پردیش کے حصوں ، مہاراشٹرا، آندھراپردیش اور کرناٹک کے حصوں سے 1947-48 میں راتوں رات اردو کی سرکاری زبان کی حیثیت کا ختم کردینایہ تمام مخالف مسلم پالیسیوں کی مثبت مثالیں ہیں۔
برہمنیت کے نفسیاتی محاربہ پہلو کے نعرے شرعی قانون میں ترمیم، اب اسے یکساں سیول کوڈ کے طور پر خفیف کیا گیا ، ہندستانی (ہندو) ثقافت کی عظمت، بدنام مخالف مسلم شخصیتوں جیسے ’مہاتما گاندھی، بی جی تلک، مدن موہن مالویہ، ویر ساورکر، لالہ لالجپت رائے‘ کو ہندستان کے ہیرو کے طور پر ابھارنا تاکہ ملک کی ترقی و پیشرفت کے لئے مسلمانوں کی حصہ داری کو گھٹایا جائے، ہندستانی تاریخ کو ازسرنو رقم کرنا، مسلم پیشوں جیسے گائے کی فروخت کو گناہ سے تعبیر کرنا اور تحفظ گائے کی پالیسیوں کی تکریم ، جانوروں کے میکانیکی ذبیحہ کا رواج عام کرنا تاکہ قصابوں کو بے روزگار کیا جائے، مسلمانوں کی جانب سے کئے جانے والے درآمدی و برآمدی کاروبار کو اسمگلنگ قرار دینا ایسی پالیسیاں ہیں جن کے ذریعہ زدپذیر ہندستانی عوام کو گمراہ کیا جانے لگا ہے جس کے نتیجہ میں ایک نفسیاتی مخالف مسلم تعصب ابھرنے لگا ہے۔مسلم انتخابی حلقوں کو عمودی ومتوازی طور پر تقسیم کیاجانے لگاہے تاکہ کہیں بھی وہ موثر ووٹ طاقت نہ رکھ پائیں اور ماورا سیکولر مسلم قائدین کو جنہوں نے ہندو مورتیوں کی پوجا شروع کردی ہے ان پر مسلط کیا جانے لگا ہے اور ایسے مناظر کو منظم انداز میں ٹیلی ویژن پر دکھا یا جانے لگا ہے۔ بدقسمتی سے مسلم قائدین ، جو حکومت سے بددل ہیں ہندوعوام پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں اور ان سے مدد حاصل ہونے کی توقع رکھتے ہیں اس حقیقت کو فراموش کرتے ہوئے کہ غریب ہندو (دلت) عوام بھی اس طرح کے پروپگنڈہ کا اتنا ہی شکار ہیں ۔اور فی الوقت تو صرف بیج بوئے جارہے ہیں۔ اس کی فصل کاٹنا ابھی باقی ہے۔اگر مسلمان فوری جوابی عمل کی کاوش نہیں کریں گے تو جب فصل کاٹنے کا موسم آئے گا ، ہندستان میں اسپین کے حالات کا اعادہ کیا جائے گا۔
وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ مسلمان؍مفکرین اٹھ کھڑے ہوں کہ ہندستان میں اندلس کی تاریخ کا اعادہ نہ ہونے پائے۔اسلام کی پاسبانی ہمیشہ مسلم عوام سے ہوئی نہ کہ اعلیٰ رتبہ والوں سے۔متمول مسلمان جو مسلم آبادی کا 5% (معمولی استثنیٰ کے ساتھ) بھی نہیں ہیں اعلیٰ ذات کے استحصال کنندگان سے ہاتھ ملارہے ہیں۔ وہ اسلام کی بات کریں گے مگر وہ ابنائے مسلم کو فراموش کربیٹھے ہیں۔ برائے مہربانی یاد رکھیں:
مذہب اپنے پیرؤں کی حفاظت نہیں کرتا، لیکن پیروکار مذہب کی پاسبانی کرتے ہیں۔ یاد رکھیں ہندستان میں اسلام کو بچانا ہے تو مسلمانوں کو بچانا ہوگا۔