Sunday, May 19, 2024
Homesliderہندوستان کی آزادی: مسلمان مجاہدین کی جدوجہد

ہندوستان کی آزادی: مسلمان مجاہدین کی جدوجہد

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد: ہندوستان میں ہر سال 15 اگست کو یوم آزادی منایا جاتا ہے ، جیسا کہ 1947 میں اسی ہندوستان کو برطانوی حکومت سے آزادی ملی تھی۔
ہم اپنے مجاہدین آزادی کو یاد رکھنے کے لیے یوم آزادی مناتے ہے ، کیونکہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ہمارے ملک کے لیے جدوجہد کی اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

ہماری یوم آزادی ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ وہی دن ہے جب ہم اپنے شہیدوں کو یاد کر سکتے ہیں جو ہمارے وطن عزیز کے لئے لیے شہید ہوئے ۔

نیز،یہ وہی واحد دن ہے جب ہم اپنے تمام ثقافتی اختلافات کو بھول جاتے ہیں اور ایک سچے ہندوستانی کی حیثیت سے متحد ہو جاتے ہیں۔

ہمارے مجاہدین آزادی نے ہمارے ملک کو آزاد کرانے کے لئے جدوجہد کی۔ مزید یہ کہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ہمارے ملک کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہندوستان میں یہاں تک کہ مجاہدین آزادی کا بھی ان کے مذہب کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے۔

کوئی ہندو یا مسلم نہیں تھا ہر فرد ہندوستانی تھا اور اس کا صرف ایک مشن تھا ایک خواب تھا ” ہندوستان کی آزادی” ۔
ہندوستان کی اس عظیم جنگ آزادی میں جن مسلم مجاہدین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ تاریخ کی کتابوں میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ جس میں ہم نے چند مسلم مجاہدین دین کی ایک فہرست تیار کی جو مندرجہ ذیل ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد
ہندوستان کے عظیم مجاہدین آزادی میں سے ایک مولانا ابوالکلام آزاد، جنہوں نے ہندوستان کو تعلیم کی اہمیت کا احساس دلایا، مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے اور ان کی یوم پیدائش 11 نومبر کو ہوئی، جس دن قومی یوم تعلیم پورے ملک بھر میں منایا جاتا ہے۔ مولانا نے ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد قوم کے لیے ان کی خدمات کو کو بخوبی انجام دیا، وہ آخری دم تک اپنے ملک کی خدمت کرتے رہے رہے رہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد 16 سال کی عمر سے ہی ملک کی آزادی کے لیے حصہ لیا۔ 1947 میں انہوں نے ‘ہندوستان چھوڑو تحریک’ میں حصہ لینے پر چار سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا. سن 1922 میں انہیں بھارت رتن سے نوازا گیا. مولانا ابوالکلام آزاد نے پچاس سال سے زیادہ عرصے تک اپنے ملک کی خدمات کی اور 22 فروری 1958 میں ان کا انتقال ہوگیا۔

ڈاکٹر ذاکر حسین 

ڈاکٹر ذاکر حسین ہندوستان کے پہلے مسلم صدر جمہوریہ )1967-1969( تھے 8 فروری کو 1897 حیدرآباد میں پیدا ہوئے جو اس وقت آندھرا پردیش کا دارلحکومت تھا۔

ڈاکٹر ذاکر حسین مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی پالیسیوں کا سخت پیروکار تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ ہندوستانی نوجوانوں کو انگریزوں کے خلاف لڑنے کے قابل بنانے کے لیے تعلیم ضروری ہے اور اسی طرح اس نظام تعلیم کو بااختیار بنانے پر توجہ دی۔

انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر کی حیثیت سے 22 سال کام کیا اور اسے ہندوستان کی ایک بہترین تعلیمی یونیورسٹی میں شامل کیا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ ہے جو اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے برسر اقتدار 3 مئ 1969 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

سید محمد شرف الدین قادری
ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کا فراموش ہیرو٫سید محمد شرف الدین قادری کو ان کی اعلی شرافت کے لئے ہماری فہرست میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے 1930 میں ‘نمک ستیا گرہ تحریک’ کے دوران ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوئے تھے. انہوں نے ہر جدوجہد میں مہاتما گاندھی کی پوری حمایت کی اور اس ملک کی آزادی کے خاطر کئی دفعہ مہاتما گاندھی کے ساتھ قید خانہ بھیجے گئے۔ آزادی کے بعد بھی وہ سیاست سے دور رہے اور اپنے ملک کی خدمت بخوبی انجام دیتے رہے۔ پدم بھوشن سے نوازنے کے آٹھ سال بعد ایک سو چودہ سال کی عمر میں 30 دسمبر 2015 کو ان کا انتقال ہوگیا۔

بخت خان
اتر پردیش کے بجنور ضلع سے تعلق رکھنے والے عظیم مجاہد، بخت خان ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف سنہ 1857 کے اندوستانی بغاوت کے دوران دہلی کے علاقے میں ہندوستانی باغی فوج کے کمانڈر ان چیف تھے۔ بخت خان ایسٹ انڈیا کمپنی کی آرمی میں صوبیدار کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کے خاطر انہوں نے باغی فوج کی کمان سنبھال لی، ان کے پاس گولابارود خوراک اور دیگر ضروریات کی کمی تھی پھر بھی اس کے باوجود وہ بغاوت کرنے والی قوتوں کے معیار کو بہت تیزی سے بہتر بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کی زبردست اور طاقتور بغاوت کی سرگرمیوں نے برطانوی حکمرانوں کی رات کی نیند اڑا دی اور انگریزوں نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا، مئ 1859 میں انگریز نے نے اپنا سب سے بڑا ہدف اٹھایا اور بخت خان کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔

مظفر احمد
مظفر احمد ایک ہندوستانی بنگالی سیاستدان صحافی اور کمیونسٹ کارکن تھے، مظفر احمد نے ہندوستانی نوجوانوں میں قوم پرست جذبات کو فروغ دینے کے لیے ایک رسالہ نوایوگ کا آغاز کیا تھا۔ برطانوی افسران کی متعدد نمایاں اموات میں ملوث ہونے پر انہیں کئی دفعہ جیل بھیجا گیا۔ کولکاتا میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ہیڈ کوارٹرز کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔ سن 1973 میں کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔

محمد عبد الرحمن
سن 1898 میں کیلا کہ تھرسور ضلع میں پیدا ہوئے، محمد عبدالرحمن 1921 کے فسادات سے متاثرہ علاقوں میں امن کی بحالی میں اپنی بہادری کے لئے جانا جاتا ھیں۔ اسی کے لئے انہیں دو سال کی جیل بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے نمک ستیاگرہ کی مشق کی اور پھر انہیں سات ماہ کے لیے سخت قید کی سزا سنائی گئی اور کنور سنٹرل جیل میں انھیں قید کر لیا گیا۔
23 نومبر 1945 کو کوڈیا ٹھور میں جلسے عام سے فورا بعد، وہ اس دنیا سے چل بسے۔

خان عبدالغفار خان
“”فرنٹیئر گاندھی” کے نام سے مشہور خان عبدالغفار خان انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کے لیے ایک اہم رول ادا کیا۔
انہوں نے 1929 میں مشہور خدائی خدمتگار (خدا کے خادم) تحریک کی شروعات کی اور انہوں نے کامیابی کے ساتھ اس کو اپنی منزل مقصود تک پہنچایا۔ آزادی کے بعد انہوں نے تقسیم ہند کی مخالفت کی لیکن ناکام رہے، وہ پاکستان منتقل ہوگئے اور علیحدہ بلوچ صوبے کے لیے تحریک شروع کی۔
اسی وجہ سے انہیں کئی بار جیل بھیج دیا گیا اور ان کا انتقال 1988 میں ہوا.
اس عرصے کے دوران افغانی باغی اور سوویت فوج کے مابین ایک جنگ جاری تھی تاہم اس افسانے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے دونوں فریقوں نے اپنی جنگ کو روک دی۔

عباس علی
بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد سے متاثر ہوکر عباس علی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نو عمر میں ہی ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئے تھے۔

وہ انڈین نیشنل آرمی اور آزاد ہند فوج میں شامل ہوگئے اس کے بعد انہیں عدالت سے مارشل کیا گیا اور انہیں سزائے موت سنائی گئی۔
تاہم اس سے پہلے کہ وہ اپنی سزا بھگتے، ہندوستان کو آزادی ملی اور بالآخر عباس علی کو آزاد کر دیا گیا۔
انہوں نے اپنی زندگی میں پچاس بار جیل بھیجے گئے۔
11 اکتوبر 2014 میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔

اسف علی 
اسف علی ہندوستانی آزادی کے عظیم مجاہد ہندوستانی وکیل تھے۔ وہ امریکہ میں پہلے ہندوستانی سفیر تھے۔
جب لاکھوں مجاہدین آزادی جیلوں میں بھرے جا رہے تھے اسف علی نے ان کی ضمانت کے لئے ان کی قانونی لڑائی لڑی۔
یہاں تک کہ انہیں جواہر لال نہرو کے ساتھ بھی جیل بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ لیا اور ہندوستان کو آزادی کے حصول میں مدد کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔
یکم اپریل 1953 میں ہندوستان کے نمائندے کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں انتقال کر گئے، ان کے اعزاز میں 1989 میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔

 مولانا مظہر الحق
22 دسمبر 1886 کو بہار ضلع پٹنہ میں پیدا ہونے والے، عظیم مجاہد مولانا مظہرالحق 1897 کے قحط کے دوران اپنی معاشرتی کاموں کے لیے مشہور تھے۔
وہ بہار کانگریس کمیٹی کی وائس چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے بعد ازاں انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔
انہوں نے عدم تعاون اور خلافت تحریکوں اور چمپارن ستیہ گرہ کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
جنوری 1930 میں ان کا انتقال ہوگیا، جس سے قبل انھوں نے تعلیم کی حوصلہ افزائی کی اور اپنی ہر جائیداد کا عطیہ کیا۔
ان کے اعزاز میں اپریل 1988 میں، مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی کا آغاز پٹنہ میں ہوا۔