Saturday, May 18, 2024
Homeتازہ ترین خبریںیو پی میں اس بار دو درجن سے زیادہ بی جے پی...

یو پی میں اس بار دو درجن سے زیادہ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کے کٹ سکتے ہیں ٹکٹ

- Advertisement -
- Advertisement -

رام مندر ،رافیل اور بے روزگاری کے مدے کے بیچ Air Strikeکا معاملہ سامنے آیا تو سیاسی ماحول ہی بدل گیا۔اور اس بدلے ہو ئے ماحول سے بی جے پی کا فی خوش ہے۔کیونکہ اُسے لگتا ہے کہ یہ ماحول پوری طرح اُنکے حق میں ہے۔ اُسے یقین ہو چلا ہے کہ اس بار بھی وزیر آعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ کی جوڑی کمال کرے گی۔خاص کر یو پی میں تو کچھ زیادہ ہی بھروسہ ہے۔ذرائع کی مانیں تو اسی اعتماد میں بی جے پی نے اپنے دو درجن سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ اور لیڈروں کے ٹکٹ کاٹنے کی تیاری کر لی ہے۔جس کی بھنک لگتے ہی ان لیڈروں نے بھی پارٹی کے خلاف مورچہ کھو ل دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اتر پردیش کے جن لیڈروں کا ٹکٹ کٹ سکتا ہے، اُن میں اُناؤ سے رکن پارلمینٹ ساکشی مہاراج،ہر دوئی سے انشول ورما،مراد آباد سے سرویش سنگھ،شا ہ جہاں پور سے رکن پارلیمنٹ کرشنا راج، کھیری سے اجئے مشرا ٹینی،دھوراہرا سے ریکھا ورما،باغپت سے ستیہ پال سنگھ،دیوریا سے کلراج مشرا،میرٹھ سے راجندر اگروال،پر یاگ راج سے شیاما چرن گپتا،ایٹاوا سے اشوک کمار دوہرے،نگینہ سے یشونت سنگھ، سہارنپور سے راگھو لکھن پال،وغیرہ پر ٹکٹ کٹنے کی تلوار لٹک رہی ہے۔اس کے علاوہ گھوسی سے ہری نارائن راجبھر،سونبھدر سے چھو ٹے لعل کھروار،بلیا سے بھرت سنگھ، مچھلی شہر سے رام چریترا نشاداور جونپور سے رکن پارلیمنٹ کرشنا پرتاپ سنگھ کابھی ٹکٹ کٹ سکتا ہے۔

اب سونچنے والی بات یہ ہے کہ 2014کے بعد سے بی جے پی جہاں لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے بڑے لیڈران صرف سن رہے ہیں۔بولتے ہوئے کم ہی سنے گئے ہیں، وہاں دوسرے کسی لیڈر کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔پھر بھی اگر کسی نے پارٹی میں بو لنے کی ہمت جٹائی ہے تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔پہلااُسکی حیثیت موجودہ اعلی قیادت کو ٹکر دینے کی ہو گئی ہو ۔یا پھر دوسرا اعلی قیادت کی طاقت میں کمزور ہو گئی ہو۔

ویسے بی جے پی جمہوری جماعت ہے۔اور سب جانتے ہیں کہ 2014کے بعد پارٹی میں اگر کسی کی چلتی ہے تو وزیر آعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کی۔

حکو مت میں دوسرے درجہ کی حیثیت رکھنے والے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی بھی اس دوران کسی بڑے فیصلہ میں کو ئی خاص اہمیت نظر نہیں آئی۔پچھلے کچھ سالوں کی بات کریں تو ہمیں راجناتھ سنگھ کا ایک ہی بڑا فیصلہ یاد ہے ،جب انہوں نے اپنے دورہ صدارت یعنی 2013میں لال کرشن اڈوانی جیسے جا نے مانے لیڈروں سے ناراضگی مول لیتے ہوئے بی جے پی کے وزیر آعظم عہدے کے اُمیدوارکے طور پر نریندر مو دی کے نام کی پیشکش کی تھی۔اُسکے بعد سے تو چرچا یہی ہے کہ حکومت میں مودی اورتنظیم میں امیت شاہ کے اشاروں کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔
ایسے میں ارکان پارلیمنٹ بغاوت پر اُترے ہیں تو کو ئی نہ کوئی بنیادی وجہ ہو گی ہی۔اب ایسا ہوا کہ Air Strikeنے ملک میں بی جے کا ماحول بنا دیا ہے تو دوسری طرف یہ سروے رپورٹ بتاتی ہے کہNDA اورBJPکامظاہرہ ان انتخابات میں 2014جیسا نہیں رہے گا۔اس سروے کو اگر مانیں تو بی جے پی کے لئے حکومت بنانا آسان نہیں ہو گا ۔اس رپورٹ نے ارکان پارلیمنٹ کو اپنی بات رکھنے کی طاقت بخشی ہے جسے بغاوت بھی کہہ سکتے ہیں۔

یو پی میں بی جے پی کا اس بار 74نشستیں جیتنے کا نشانہ ہے۔جسے پو را کرنے کے لئے وہ ٹکٹوں میں پھیر بدل کرنا چاہتی ہے ۔اس لئے بی جے پی اپنے دو درجن سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ کا پتہ کاٹ سکتی ہے۔یہ وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں جو پارٹی کے Internal Serve میں اور پارٹی کے اعلیٰ کمان کی اُمیدوں پر کھرے نہیں اُترے ہیں۔

2014سے بی جے پی کا ’’وجئے رتھ ‘‘ جو چلنا شروع ہوا تو 2017تک دلی اور بہار کے علاوہ سبھی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں عام انتخابات جیسا ہی مظاہرہ کیا۔مودی اور شاہ کی کو ششوں سے بی جے پی ملک میں سب سے زیادہ ریاستوں میں حکو مت بنانے والی پارٹی بن گئی۔
اس دوران پارٹی کی جانب سے کئے گئے کئی سخت فیصلے بھی سامنے آئے ۔ جس میں سے ایک تھا کہ 75سال سے زیادہ عمر والے لیڈران نہ تو انتخاب لڑ پائیں گے ،اور نہ ہی کسی بڑے عہدے پر رہیں گے۔حالانکہ اب اس فیصلہ کو واپس لے لیا گیا ہے ،لیکن اُس وقت اس فیصلہ سے کلراج مشرامتاثر ہو ئے تھے۔اُنہیں وزارت چھوڑنی پڑی تھی مگر وہ کچھ نہیں بو ل سکے تھے۔مگر اب حالات بدلے نظر آرہے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ووٹروں میں بی جے پی کا اپنے آپ کو مظبوط بتانا سچ ہو ،مگر پارٹی ارکان میں اُس کی چمک دھمک کمزور پڑ رہی ہے۔جس کی حالیہ مثال اُناؤ کے رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج ہیں جنہوں نے جماعت کو خط لکھ کر کہا کہ اگر ان کا ٹکٹ کٹا تو بی جے پی پانچ لاکھ ووٹوں سے ہارے گی۔

اب جیسے جیسے لو ک سبھا انتخابات کی تاریخیں نزدیک آتی جائیں گی بی جے پی کے باغی ارکان کی ناراضگی مزید بڑھے گی جس کا بی جے پی کو نقصان ہوگا۔جانکاروں کے مطابق اس بار بی جے پی کا مقابلہ صرف ایس پی ،بی ایس پی کے مضبوط اتحاد اور کانگریس سے ہی نہیں ہوگا
؂ ۔بلکہ اُس کے راستے میں پارٹی کے باغی ارکان پارلیمنٹ بھی اُس کی راہ میں کانٹے بو نے کے لئے تیار رہیں گے۔